کتاب: ایمان میں زیادتی اور کمی کے اسباب - صفحہ 53
ناپسند سمجھنے والا ہو گا اور اتنا ہی اس سے دور ہو گا اور اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو اسی مقام پر رکھتا ہے جہاں پر بندہ اسے رکھتا ہے۔‘‘[1] تو اللہ تعالیٰ کی معرفت خوف اور ڈر کے پہلو کو مضبوط بناتی ہے اور امید کو دل میں بڑی قوی بناتی ہے اور بندے کے ایمان میں زیادتی کرتی ہے اور طرح طرح کی عبادات کا فائدہ دیتی ہے، تو اس معرفت کے حصول کی طرف اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ صرف کتاب اللہ میں تدبر اور غور و فکر ہی اس کی ایک راہ ہے اور وہ ہدایات جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اپنے رسولوں کے ذریعے، اپنی اسماء و صفات اور افعال میں غور و تدبر کے متعلق بیان فرمائی ہیں اور جن باتوں سے اس نے اپنے آپ کو پاک اور منزہ کیا ہے جو اس کی ذات سے مناسبت نہیں رکھتیں ان سے بچنے کی تاکید کی۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے ایام اور افعال جو اللہ تعالیٰ کے اولیاء اور دشمنوں پر جو اس نے بیان کیے ہیں اور انھیں ان واقعات کا گواہ بنایا ہے کہ وہ اس بات پر دلیل حاصل کریں کہ اللہ تعالیٰ ہی ان کا معبود برحق ہے، اس کے علاوہ کسی کی عبادت کرنا درست نہیں اور وہ اس بات پر بھی دلیل حاصل کریں کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے اور ہر چیز کو دیکھنے والا ہے اور سخت عذاب والا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ غفور رحیم.....العزیز الحکیم ہے اور جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ وہ ہر چیز کا رحمت و علم سے احاطہ کیے ہوئے اور اس کے سب کے سب افعال حکمت و رحمت اور عدل و مصلحت کے درمیان چل رہے ہیں۔ کوئی چیز بھی ان کے بغیر نہیں ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا ایسا ثمرہ ہے کہ جس کے حاصل کرنے کا اللہ کے کلام میں تدبر اور اس کے افعال میں غور و فکر کیے بغیر اور کوئی راستہ نہیں ہے۔[2] جو شخص اس سیدھے راستے کی مخالفت کرے اور اس راستے سے ہٹ جائے اور اس راستے میں اپنے رب کو پہچاننے میں ٹیرھا پن اختیار کرے تو یہ چیز اسے اپنے رب کی معرفت
[1] الکافیۃ الشافیۃ، ص: ۳، ۴۔ [2] مفتاح دار السعادۃ لابن القیم، ص: ۲۰۲