کتاب: ایمان میں زیادتی اور کمی کے اسباب - صفحہ 52
’’اَلْعُلَمَائُ‘‘ یعنی اللہ کی قدرت کو جانتے ہیں کہ وہ ہر ایک بات پر قادر ہے اور جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ کیونکہ جو شخص یہ بات جان لے تو وہ اس کی نافرمانی پر سزا کا یقین کر کے اس سے ڈر جاتا ہے کہ وہ اسے کہیں سزا نہ دے دے۔‘‘[1] حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’یعنی علماء عارفین باللہ اس سے اس طرح ڈرتے ہیں جس طرح ڈرنے کا حق ہے، کیونکہ جب معرفت عظیم و علیم کی ہو، جو صفاتِ کمال سے موصوف اور اسمائے حسنیٰ سے موسوم ہو تومعرفت مکمل ہو گی اور علم کامل ہو گا تو اللہ کی خشیت عظیم اور زیادہ ہو گی۔[2] سلف میں سے ایک عالم نے ایک مختصر عبارت میں اس جامع بات کو سمیٹ دیا ہے چنانچہ لکھتے ہیں : ’’جو شخص اللہ کی معرفت زیادہ رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے بہت زیادہ ڈرنے والا ہوتا ہے۔‘‘[3] امام ابن قیم رحمہ اللہ نے کہا: ’’ارواح کو کسی اور چیز کی اتنی زیادہضرورت نہیں ہوتی جتنی انھیں اپنے پیدا کرنے والے کی معرفت اور محبت و ذکر کی ہوتی ہے، نیز اس کے ساتھ خوش رہنے اور اس کی طرف مرتبہ وسیلہ تلاش کرنے کی انھیں سخت ضرورت ہوتی ہے۔ مگر اس کی طرف لوٹنے کا کوئی راستہ اس کے سوا نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کی معرفت سے اس کے قریب ہوا جا سکتا ہے۔ تو بندہ جتنا اسے زیادہ جانتا ہو گا اتنی ہی اسے اس کی معرفت ہو گی اور وہ اتنا ہی اس کی طلب رکھے گا اور اس کے قریب ہو گا اور جب وہ اس سے اجنبی اور ناواقف ہو گا، اسے اتنا
[1] تفسیر الطبری: ۱۹؍۳۶۴ ، الناشر: دار ھجر۔ [2] تفسیر ابن کثیر: ۶؍۵۴۴، الناشر: دار طیبۃ۔ [3] الرسالۃالقشیریۃ لأبي القاسم القشیري، ص: ۱۴۱۔