کتاب: ایمان میں زیادتی اور کمی کے اسباب - صفحہ 51
(۳) .....ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو پکارنا، دعا کرنا، اور یہ دعائے عبادت اور دعائے سوال کو شامل ہے۔‘‘[1] شیخ ابن سعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’گزشتہ حدیث ابوہریرہ میں اَحْصَاہَا کے معنی اسمائے حسنیٰ کو یاد کرنے اور اس کے معانی سمجھنے، ان پر عقیدہ رکھنے ،ان کے ساتھ عبادت اور دعا کرنے کے ہیں۔ آگے فرمایا: ’’دخل الجنۃ‘‘ یعنی وہ جنت میں داخل ہو جائے گا اور جنت میں صرف مومن ہی جا سکتے ہیں .....تو معلوم ہو گیا کہ یہ عمل ایمان کا بہت بڑا چشمہ ہے اور حصول ایمان کا اصل مادہ ہے اور یہ ایمان قوت، ثبات اور اسمائے حسنیٰ کی معرفت جو اصل ایمان ہے اور ایمان اسی کی طرف لوٹتا ہے۔‘‘[2] تو جس شخص نے اللہ تعالیٰ کو اس طرح پہچانا، وہ تمام لوگوں سے زیادہ مضبوط ایمان والا ہو گا اور اللہ کی اطاعت اور عبادت میں قوی ہو گا اور اللہ سے بہت ڈرنے والا ہو گا اور اس کے احکام کا بہت اہتمام کرنے والا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ ﴾ (فاطر: ۲۸) ’’اللہ تعالیٰ سے اس کے بندوں میں سے صرف علماء ہی بہت ڈرتے ہیں۔‘‘ امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں : ’’اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ يَخْشَى اللَّهَ ﴾یعنی اس کی اطاعت کر کے اس کے عذاب سے بچتے ہیں۔‘‘ آگے فرمایا:
[1] بدائع الفوائد لابن القیم ۳؍۲ الناشر: دار الکتب العربی، بیروت [2] التوضیح والبیان لابن سعدی ، ص: ۲۶، نسخہ آخر، ص: ۷۲۔