کتاب: ایمان میں زیادتی اور کمی کے اسباب - صفحہ 48
سے اعراض کیے ہوئے ہو۔ ۴۔ چوتھا فائدہ .....ارکان ایمان میں سے اصل اور افضل چیز یہ ہے کہ اللہ پر ایمان لائے اور ایمان یہ نہیں ہے کہ صرف زبان سے کہہ دے کہ میں ایمان لے آیا ہوں اور حالت یہ ہو کہ اپنے رب کی معرفت نہ رکھتا ہو۔ بلکہ حقیقت میں ایمان یہ ہے کہ جس ذات پر وہ ایمان رکھتا ہو اس کی اسے معرفت بھی حاصل ہو اور وہ اس کے اسماء و صفات کی معرفت میں اپنی کوشش صرف کرے، حتیٰ کہ اسے یقین حاصل ہو جائے اور رب کی معرفت یہ ہے کہ اس پر ایمان ہو، پھر رب کی جتنی معرفت ہو گی اتنا ہی اس کا ایمان زیادہ ہو گا اور جتنی اس کی معرفت کم ہو گی اتنا ہی اس کا ایمان کم ہو گا اور قریب ترین راستہ جو اسے اس پر پہنچائے وہ اسماء و صفات میں غور و تدبر ہے۔ ۵۔ پانچواں فائدہ .....اللہ تعالیٰ کا علم تمام چیزوں میں سے اصل ہے۔ حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ کو جاننے والا، اس کی حقیقی معرفت والا اپنی معرفت پر اللہ کے اسماء و صفات اور افعال سے اس چیز پر دلیل حاصل کرتا ہے جو کچھ وہ کرتا ہے یا جن احکام پر چلتا ہے وہ اس کے عدل، فضل اور حکمت کے دائرہ کار کے درمیان ہے، کیونکہ وہ وہی کام کرتا ہے جو چاہتا ہے تو اس کی خبریں سب حق اور سچ ہیں اور اس کے اوامر و نواہی سب عدل اور حکمت پر مبنی ہیں۔[1] ان فوائد میں سے یہ بھی ہے کہ اسمائے حسنیٰ اور عظیم الشان آیات اللہ تعالیٰ کی بندگی اور خشوع و خضوع سے اثرات کا تقاضا کرتی ہیں تو بندگی کی ہر صفت کے لیے ایک خاص عبودیت کی صفت ہے جو اس کے مقتضیات میں سے ہے اور اس کے علم کے موجبات میں سے ہے اور اس کی معرفت کو اپنانے سے ہے اور تمام انواع عبودیت سے جو قلوب و جوارح پر اثر انداز ہوتی ہیں وہ اسی پر قیاس کیے جائیں گے۔ اس کی وضاحت اس طرح ہے جب بندہ یہ بات معلوم کرلے کہ نفع و نقصان صرف اللہ
[1] تیسیر الکریم الرحمن المعروف تفسیر سعدی:۱؍۳۶ الناشر: مؤسسۃ الرسالۃ۔