کتاب: ایمان میں زیادتی اور کمی کے اسباب - صفحہ 44
دیکھتے جو خوش الحانیوں کے فتنوں میں پڑے ہوئے ہیں اور حروف کی خوبصورتی اور درستی میں مصروف ہیں۔تو وہ قریب تھا کہ یوں کہتے۔ اس کے ساتھ ساتھ آج کل کے لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی حدود کو بھی پامال کرنا شروع کر دیا اور انھیں ضائع کر دیا اور اس کے ساتھ لوگوں کے بھی کان قرآن کے سماع سے ہٹ کر حروف کے سیدھے کرنے کی طرف مائل ہو گے اور وہ قرآن سن کر نہ تو خاموش ہی رہتے ہیں اور نہ ہی کلام الٰہی میں تدبر کرتے ہیں۔ بہرحال، قرآن مجید کو تجوید و ترتیل سے پڑھنے اور اسے خوش آوازی اور اچھی ادائی کے ساتھ پڑھنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اعتراض تو لفظوں کو سیدھا کرنے اور ان کی ادائیگی میں تکلف کرنے پر ہے کہ وہ اس کے اوامر کو ماننے کی کوئی پروا اور اہتمام نہیں کرتے۔ یہاں تک کہ ان میں سے بعض اللہ کی حدود کو بھی پرہیزگاری سے ادا نہیں کرتے بلکہ وہ قرآن مجید پر بالکل عمل نہیں کرتے نہ اخلاق میں اور نہ عادات میں اس کی پابندی کرتے ہیں۔ ان میں سے جو قاری اور حافظ قرآن ہے وہ اپنی داڑھی منڈوائے ہوئے ہے اور حروف کو سیدھا کر کے پڑھنے کی کوشش کر رہا ہے اور اپنی تہ بند ٹخنوں سے نیچے لٹکائے ہوئے ہے اور نمازوں کو بھی ضائع کر رہا ہے، یا تو کلی طور پر یا جماعت سے پیچھے رہ کر، اسی طرح وہ دیگر منکرات کا مرتکب ہے، حتیٰ کہ ان میں سے ایک وہ بھی ہے جو قرآن مجید کی آیات غنائی محفل میں فاجرہ فاسقہ عورت کے سامنے شروع کرتا ہے۔ اسی طرح وہ قرآن مجید کی آیات کو، جو ہمارے رب کا کلام ہے، گدلا کرنے کی کوشش کروا رہا ہے۔ میرے لیے کافی ہے کہ میں یوں کہہ دوں جس طرح امام حسن بصری رحمہ اللہ نے کہا: ’’ایسے قراء کب تک رہیں گے اللہ تعالیٰ لوگوں میں ایسے قاریوں کو بڑھنے نہ دے۔‘‘ ابن العربی رحمہ اللہ اپنے زمانے کے قراء کا یوں وصف بیان کرتے ہیں : ’’وہ قرآن مجید کے حروف کو سیدھا کرنے میں لگے ہوئے ہیں مگر اس کی حدود کو پامال کر رہے ہیں اور انھوں نے اس کام کو ایک صنعت بنا لیا ہے۔ حالانکہ قرآن مجید تو عمل کے لیے اترا ہے۔ لیکن جب یہ قراء ات صنعت بن گئی تو