کتاب: ایمان میں زیادتی اور کمی کے اسباب - صفحہ 37
اور فرمایا: ﴿ أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَى قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا ﴾ (محمد: ۲۴) ’’کیا یہ لوگ قرآن میں تدبر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے چڑھے ہوئے ہیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے اس قرآن مجید کو اس لیے نازل کیا تاکہ اس کی آیات میں تدبر کریں۔چنانچہ فرمایا: ﴿ كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ ﴾ (صٓ: ۲۹) ’’یہ کتاب ہے، ہم نے اسے آپ کی طرف نازل کیا، بابرکت ہے، تاکہ یہ لوگ اس کی آیات میں غور و فکر کریں اور عقل مند اس سے نصیحت حاصل کریں۔‘‘ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ بات واضح کی کہ جو شخص صراط مستقیم سے بھٹک گیا اس کی گمراہی کا سبب یہ ہے کہ اس نے قرآن مجید میں تدبر اور غور و فکر کرنا ترک کر دیا اور اس کے سننے سے تکبر کرنے لگا۔ چنانچہ فرمایا: ﴿ قَدْ كَانَتْ آيَاتِي تُتْلَى عَلَيْكُمْ فَكُنْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ تَنْكِصُونَ (66) مُسْتَكْبِرِينَ بِهِ سَامِرًا تَهْجُرُونَ (67) أَفَلَمْ يَدَّبَّرُوا الْقَوْلَ أَمْ جَاءَهُمْ مَا لَمْ يَأْتِ آبَاءَهُمُ الْأَوَّلِينَ ﴾ (المؤمنون: ۶۶۔۶۸) ’’میری آیات تم پر تلاوت کی جاتی تھیں توتم اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاتے تھے۔ تم اس کے ساتھ تکبر کرتے تھے رات کو بے ہودہ باتیں کرتے ہوئے۔ کیا یہ بات میں غور و فکر نہیں کرتے ؟یا ان کے پاس وہ چیز آ گئی جو ان سے پہلے ان کے باپ دادوں کے پاس نہیں آئی۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے متعلق یہ خبر دی کہ وہ مومنوں کو ان کے ایمان میں بڑھاتا