کتاب: ایمان میں زیادتی اور کمی کے اسباب - صفحہ 36
’’جو شخص اللہ کے کلام میں غورو فکر کرے تو وہ اپنے رب کو پہچان لیتا ہے اور اس کے عظیم غلبے اور طاقت کوبھی جان لیتا ہے اور مومنوں پر اللہ تعالیٰ کے عظیم احسانات بھی معلوم کر لیتا ہے اور وہ فرائض کی بھی پہچان کر لیتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر بطور عبادت فرض کیے تو اس نے اپنے نفس پر اس کے فرض کو لازم کر لیا۔ تو جس سے اللہ نے اسے ڈرایا اس سے وہ ڈر گیا اور جس چیز کی اس نے رغبت دلائی اسے اپنا لیا، تو قرآن مجید کی تلاوت یا اس کی سماعت کے وقت جس شخص کی یہ کیفیت ہو جائے تو اس کے لیے شفا بن جاتا ہے، وہ بغیر مال کے غنی ہو جاتا ہے اور قبیلے و خاندان کے بغیر معزز ہو جاتا ہے اور جس چیز سے باقی سب ڈرتے ہیں یہ شخص اس سے مانوس ہو جاتا ہے۔ تو قرآن تلاوت کے وقت جب وہ سورت شروع کرتا ہے تو اسے یہ فکر دامن گیر ہوتی ہے کہ میں کب اپنی تلاوت کردہ آیات سے نصیحت حاصل کروں گا؟ اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں کب اس سورت کو ختم کروں گا، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ میں کب اپنے ساتھ اپنے رب کے کلام کو سمجھوں گا اور کب اللہ کی زجر و توبیخ سے نصیحت پکڑوں گا اور میں کب عبرت پکڑوں گا، کیونکہ قرآن کی تلاوت ایک عبادت ہے جو غفلت سے ادا نہیں ہو سکتی اور اللہ تعالیٰ ہی اس کی توفیق دینے والا ہے۔‘‘[1] اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو قرآن کے تدبر اور غور و فکر پر برانگیختہ کیا، چنانچہ فرمایا: ﴿ أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا ﴾ (النساء: ۸۲) ’’کیا یہ لوگ قرآن سمجھتے نہیں اور اگر یہ غیر اللہ کی طرف سے ہوتا تو یہ لوگ اس میں بہت بڑا اختلاف پاتے۔‘‘
[1] أخلاق حملۃ القرآن للآجری ، ص: ۱۰۔