کتاب: ایمان میں زیادتی اور کمی کے اسباب - صفحہ 35
میں غنی ہوں، تمام خیر و شر میرے حکم کے بغیر کسی کو نہیں مل سکتے میری رحمت اور فضل سے ہی میری ہر نعمت حاصل ہو سکتی ہے اور ذرہ بھر برائی بھی میرے عدل و حکمت سے ہی کسی کو پہنچ سکتی ہے۔
اس کے خطاب سے یہ واضح ہوا کہ وہ اپنے دوستوں کے لیے نہایت نرم عتاب اور ناراضگی رکھتا ہے۔ اس کے باوجود وہ ان کی لغزشوں کو معاف کر دینے والا ہے اور ان کی غلطیوں کو بخشنے والا ہے اور ان کے عذرات کو درست کرنے والا ہے، ان کے مفسدات کو درست کرنے والا ہے، ان کا دفاع کرنے والا ہے، ان کی حمایت کرنے والا ہے، ان کی مدد کرنے والا ہے، ان مصلحتوں کی ضمانت دینے والا ہے، انھیں ہر مصیبت سے نجات دینے والا ہے، ان سے اپنا وعدہ پورا کرنے والا ہے، اور وہ ان کا ایسا ولی ہے کہ ایسا کوئی بھی ان کا ولی نہیں ہے، وہ ان کا سچا مولی و مالک ہے اور ان کے دشمن پر ان کا مددگار ہے تو وہ بہتر مولیٰ اور بہترین مددگار ہے۔
اسی طرح ایک شخص اللہ کی کتاب میں غورو فکر اور اس میں تدبر کرنے سے فو ائد حاصل کرتا ہے اور اس کا دل اس میں ایسا علم دیکھتا ہے جو اس کے ایمان میں زیادتی کا باعث ہے اور اسے مضبوط و قوی بنا دیتا ہے۔
یہ کیسے نہ ہو کیونکہ وہ قرآن میں ایسے بادشاہ کو دیکھتا ہے جو بہت بڑی ذات ہے۔ نہایت رحیم، سخی اور خوبصورت ہے۔ تو جس ذات کی یہ شان ہو تو وہ اسے کس طرح نہ چاہے اور اس کے قریب ہونے میں رغبت نہ کرے اور اس سے دوستی لگانے میں اپنی آخری سانسیں بھی کیوں نہ دے اور کیسے وہ اسے تمام ماسوا سے زیادہ محبوب نہ ہو اور کس طرح اس کی یاد میں فریفتہ نہ ہو اور اس کا شوق و محبت اور انست و الفت اس کی دوا اور قوت و غذا نہ بن جائے اور اس طرح وہ کیسے نہ ہو حالانکہ اگر وہ نہ ہو تو وہ ہلاک ہو جائے اور اپنی زندگی سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔[1]
علامہ آجری رحمہ اللہ کہتے ہیں :
[1] الفوائد لابن القیم، ص: ۵۸۔۶۰۔