کتاب: ایمان میں زیادتی اور کمی کے اسباب - صفحہ 28
’’ہم نے آپ کی طرف حق کے ساتھ کتاب نازل کی تو آپ اللہ کی بندگی کریں اس کے لیے عبادت کو خاص کرتے ہوئے، خبردار! اللہ ہی کے لیے خالص دین ہے۔‘‘ کتنی ہی آیات ہیں جنھیں گننا اور شمار کرنا مشکل ہے۔ یہ سب کی سب اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ علم کا مقصد اللہ کی عبادت کرنا ہے اور عبادات و طاعات کی تمام اقسام اللہ کی طرف مخلص کرنا ہے۔ ۲۔ دوسری یہ دلیل ہے کہ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ علم کی روح عمل ہے، اگریہ نہ ہو تو علم بے کار اور غیر مفید ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ﴾ (فاطر: ۲۸) ’’اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے صاحب علم لوگ ہی اللہ سے ڈرتے ہیں۔‘‘ اور فرمایا: ﴿ أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّيْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَيَرْجُو رَحْمَةَ رَبِّهِ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ﴾ (الزمر: ۹) ’’جو شخص رات کی گھڑیوں میں اللہ کے سامنے عاجزی کرتا ہے سجدہ کرتے ہوئے اور کھڑے ہو کر، آخرت سے ڈرتا ہے اور اپنے رب کی رحمت کی امید کرتا ہے، کہہ دیجیے کیا وہ لوگ جو علم والے ہیں اور وہ جو علم والے نہیں ہیں، یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں، (نہیں ہو سکتے) بے شک صرف عقل مند لوگ ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں۔‘‘ یہ دلائل اور ان کے علاوہ دیگر دلائل اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ علم وسائل میں سے ایک وسیلہ ہے اور شرعی نقطہ نظر میں یہ مقصود بالذات نہیں ہے۔ بلکہ یہ عمل کا ایک ذریعہ ہے تو علم کی فضیلت میں جو کچھ بھی وارد ہے وہ تو مکلف بالعمل ہونے کے لحاظ سے وہ علم کے لیے بھی ثابت ہے۔