کتاب: ایمان میں زیادتی اور کمی کے اسباب - صفحہ 27
جس کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ پس اصل علم مقصود بالذات نہیں ہوتا، علم تو مقصود لغیرہ ہے جسے عمل کہا جاتا ہے۔ تو ہر وہ علم جو شرعی ہو، پھر شریعت اس کا مطالبہ کرے تو یہ اس لیے ہو گا کہ یہ علم اللہ کی عبادت کا وسیلہ ہے۔ اس طلب کی کوئی اور وجہ نہیں ہے اور اس پر کئی امور دلالت کرتے ہیں اور ان میں سے چند ایک یہ ہے: ۱۔ شریعت اللہ تعالیٰ کی عبادت لے کر آئی ہے اور انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا مقصد بھی یہی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ يَاأَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ ﴾ (البقرۃ: ۲۱) ’’اے لوگو! اپنے رب کی بندگی کرو۔‘‘ اور فرمایا: ﴿ الر كِتَابٌ أُحْكِمَتْ آيَاتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ (1) أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللَّهَ ﴾ (ہود: ۱۔۲) ’’الٓرٰ یہ کتاب، محکم آیات والی ہے تو پھر اسے الگ الگ بیان کیا گیا ہے، حکمت والے باخبر ذات کی طرف سے ہے، کہ صرف اللہ کی بندگی کرو۔‘‘ نیز فرمایا: ﴿ وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ﴾ (الانبیاء: ۲۵) ’’ہم نے آپ سے پہلے جو رسول بھی بھیجا اس کی طرف یہ وحی کرتے رہے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں ہے تو اس لیے میری بندگی کرو۔‘‘ اور فرمایا: ﴿ إِنَّا أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللَّهَ مُخْلِصًا لَهُ الدِّينَ ، أَلَا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ﴾ (الزمر: ۲۔۳)