کتاب: ایمان میں زیادتی اور کمی کے اسباب - صفحہ 26
شخص کو اس دین کی سمجھ اور توفیق مل گئی تو اسے بہت سی خیر عطا ہو گئی۔ اس پر لفظ ’’خیر‘‘ کا بطور نکرہ ذکر کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ خیر تمام قسم کی چھوٹی بڑی یا کم اور زیادہ بھلائیوں کو ضمن میں لیے ہوئے ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا اس شخص پر فضل و کرم اور عظیم احسان ہے کہ جو اس علم کی توفیق دیا گیا اور جو شخص اس علم سے محروم رہ گیا تو گویا کہ وہ ہر قسم کی بھلائی سے محروم رہ گیا۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’اس حدیث سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ دین کی سمجھ نہ دے اس کے ساتھ وہ بھلائی کا ارادہ نہیں رکھتے اور جسے سمجھ دے دیں تو گویا اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا بھلائی کا ارادہ ہوتا ہے۔‘‘[1] اس علم سے مراد وہ علم ہے جس کے ساتھ عمل بھی ہو، کیونکہ صرف علم کا وجود بغیر عمل کے اس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ یہ علم نفع بخش ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جو شخص دین میں سوجھ بوجھ حاصل نہ کرے یعنی اسلام کے قواعد اور اس کے متصل فروع نہ سیکھے تو گویا کہ وہ خیر کثیر سے محروم ہو گیا، کیونکہ جو شخص اپنے دینی امور نہیں جانتا وہ کبھی فقیہ نہیں ہو سکتا اور نہ ہی وہ فقہ کا طالب ہوتا ہے، تو اس لیے اس کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ اس کے ساتھ اللہ کی طرف سے خیر کا ارادہ نہیں کیا گیا۔ اس حدیث میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ علماء تمام لوگوں سے افضل ہیں اور دینی علم کی تمام علوم پر افضلیت ہے۔‘‘[2] اس علم نے یہ بلند مقام اس لیے حاصل کیا ہے کہ یہ عظیم ترین مقامات اور غایات کا وسیلہ ہے اور یہ بلندی اللہ وحدہٗ لا شریک کی عبادت اور اس کی توحید ہے جو اسی طریق پر ہو
[1] مفتاح دار السعادۃ لابن القیم ، ص: ۶۵ نسخہ آخرہ، ص: ۶۰۔ [2] فتح الباری: ۱؍ ۱۶۵۔