کتاب: ایمان میں زیادتی اور کمی کے اسباب - صفحہ 22
عَزَّوَجَلَّ وَ مَلَائِکَتَہٗ وَأَہْلَ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ، حَتَّی النَّمْلَۃَ فِيْ جُحْرِہَا وَحَتَّی الْحُوْتَ لَیُصَلُّوْنَ عَلٰی مُعَلِّمِ النَّاسِ الْخَیْرِ)) [1] ’’عابد پر عالم کی فضیلت اس طرح ہے جس طرح میری فضیلت تم میں سے سب سے ادنیٰ ہے اور اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اور تمام آسمانوں اور زمینوں میں رہنے والے حتیٰ کہ چیونٹی اپنی بل میں اور مچھلی بھی اسی شخص کے لیے دعا کرتے ہیں جو لوگوں کو خیر اور بھلائی سکھاتا ہے۔‘‘ ان نصوص مذکورہ میں علم کا مقام و مرتبہ، اس کی شان اور عظمت و اہمیت واضح کی گئی ہے، اسی طرح اس علم پر جو قابل تعریف آثار اور عمدہ خصائل دنیا و آخرت میں مرتب ہوتے ہیں وہ بیان کیے گئے ہیں اور جو اس سے خشوع و خضوع اور شریعت کے لیے پابند ہونا ہے اور اطاعت و فرمان برداری کے جذبے کا پیدا ہونا ہے، بیان کیا گیا ہے۔ پس عالم اپنے پروردگار اور اپنے رسول کو اور اللہ کے احکام و حدود کو اچھی طرح جانتا ہے اور جو چیز اللہ تعالیٰ کو پسند ہے اور جسے وہ چاہتا ہے۔ اسی طرح وہ چیز جسے وہ ناپسند کرتا اور اس کا انکار کرتاہے اور اس سے منع فرماتا ہے ان دونوں میں عالم انسان تمیز کر سکتا ہے۔ تو وہ اللہ عزوجل کے حکم کے مطابق عمل کرتا ہے اور جو عمل قابل ترک ہے اسے چھوڑ دیتا ہے، اگر اس کا عمل علم کے موافق ہے تو کامیاب، بصورتِ دیگر یہ علم اس کے لیے باعث وبال ہو گا۔ علامہ آجری رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’أخلاق العلماء‘‘ کے مقدمہ میں فرماتے ہیں : ’’اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے سب سے محبوب لوگوں کو مختص کر لیا تو انھیں ایمان کی طرف ہدایت دی، پھر مومنوں سے کچھ لوگوں کو چن لیا اور اپنی کتاب و حکمت کی تعلیم دی اور دین کی سمجھ عطا کی اور انھیں علم تفسیر عطا فرمایا اور تمام
[1] ترمذی، ح: ۲۶۸۵۔ الترغیب والترہیب، ح: ۱۲۷۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اسے حسن صحیح کہا ہے۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔