کتاب: ایمان میں زیادتی اور کمی کے اسباب - صفحہ 18
نافع کے ضمن میں کافی ہے۔‘‘[1] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’علم سے مراد شرعی علم ہے اور جو چیز اللہ کی طرف سے بندے پر فرض اور ضروری ہے اسے سمجھنا، اس کی معرفت حاصل کرنا بھی ضروری ہے، کیونکہ یہ ایک مسلمان آدمی کے ذمہ فریضہ ہے کہ اس کے دینی اور دنیاوی امور جو اس کی زندگی میں پیش آنے والے ہیں ان کی وہ معرفت رکھتا ہو۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی عبادت و اطاعت اور ذات و صفات کا علم حاصل کرنا اور اس کے احکام کی اتباع اور اسے تمام قسم کے عیوب سے منزہ و پاک سمجھنا اور دنیوی معاملات کی معرفت حاصل کرنا اور ان پر پابند رہنا ضروری ہے۔ ان تمام باتوں کا علم قرآن و حدیث اور فقہ کے علم پر منحصر ہے۔جس شخص کو اس علم کی معرفت حاصل ہو گئی تو ایسے شخص کو ایمان میں اضافے اور بڑھوتری کا ایک حصہ مل گیا اور جو شخص قرآن و حدیث کی نصوص میں غور و فکر کرتاہے تو اللہ تعالیٰ یہ علم عطا فرما دیتا ہے۔‘‘[2] اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَائِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ﴾ (آل عمران: ۱۸) ’’اللہ تعالیٰ نے گواہی دی کہ اس کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں اور فرشتوں اور اہل علم نے بھی(گواہی دی)۔انصاف پر کھڑے ہو کر۔ اس کے علاوہ کوئی بھی معبود نہیں وہ غالب حکمت والا ہے۔‘‘ اور دوسری جگہ فرمایا: ﴿ لَكِنِ الرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ مِنْهُمْ وَالْمُؤْمِنُونَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَالْمُقِيمِينَ الصَّلَاةَ وَالْمُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالْمُؤْمِنُونَ بِاللّٰهِ
[1] فضل علم السلف علی علم الخلف، ص: ۴۵۔ [2] فتح الباری: ۱؍ ۱۴۱۔