کتاب: ایمان میں زیادتی اور کمی کے اسباب - صفحہ 167
سیّدنا ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أَتَانِیْ جِبْرِیْلُ علیہ السلام فَبَشَّرَنِیْ اَنَّہُ مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِکَ لَا یُشْرِکُ بِاللّٰہِ شَیْئًا دَخَلَ الْجَنَّۃَ، قُلْتُ: وَإِنْ زَنَی وَإِنْ سَرَقَ؟ قَالَ: وَإِنْ زَنَی وَإِنْ سَرَقَ )) [1] ’’میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے اور اُنہوں نے مجھے اس بات کی بشارت دی کہ: ( اے محمد! صلی اللہ علیہ وسلم ) تمہاری اُمت میں سے جو شخص اس حال میں فوت ہوا کہ اس نے اللہ عزوجل کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرایا ہو تو وہ جنت میں ( ضرور) داخل ہو گا۔ میں نے کہا: اگرچہ اس نے زنا او ر چوری جیسے گناہ کا بھی ارتکاب کیا ہو؟ انہوں نے فرمایا: اگرچہ اُس سے زنا اور چوری جیسے (کبیرہ) گناہوں کا بھی ارتکاب ہوا ہو۔‘‘ سیّدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ایمان ..... عیوب و نقائص سے پاک ایک چیز ہے۔ اور جو شخص زنا کرتا ہے ایمان اُس سے جدا ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اگر وہ اپنے نفس کو ملامت کرے اور ایمان کی طرف رجوع کر لے تو ایمان بھی اُس کی طرف واپس پلٹ آتاہے۔ ‘‘[2] سیّدنا ابوالدرداءرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ایمان کی مثال تم میں سے کسی شخص کی قمیض کی طرح ہے کہ جسے وہ کبھی اُتارلیتا ہے اور کبھی اسے پھر پہن لیتا ہے۔ (یعنی جب مسلمان آدمی کسی کبیرہ گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کا ایمان اس کے وجود سے اُترجاتا ہے اور جب
[1] یہود و نصاریٰ کی طرح نام کے مسلمان جو شرک میں گرفتار ہیں ، اولیاء اللہ کے نام کا روزہ رکھتے ہیں ، ان کی قبروں کو پوجتے ہیں ، ان کے نام پر جانور کاٹتے ہیں اور ان کی منتیں مانتے ہیں ، اُٹھتے بیٹھتے ان کو پکارتے ہیں ، وہ بھی مشرکوں کے حکم میں آتے ہیں ۔ (تفسیر وحیدی)  رواہ البخاری ؍کتاب التوحید ؍حدیث :۷۴۸۷ و صحیح مسلم ؍کتاب الایمان ؍حدیث :۲۷۲واللفظ لمسلمٍ۔ [2] دیکھیے: امام لالکائی رحمہ اللہ کی ’’شرح اُصول اعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ‘‘