کتاب: ایمان میں زیادتی اور کمی کے اسباب - صفحہ 162
کے نزدیک تمام کی تمام اطاعتوں (اعمالِ صالحہ) کا نام ایمان ہے۔‘‘ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین عظام و تبع تابعین کرام اور قرآن و سنت کی مکمل اطاعت و احسان کے ذریعے ان حضراتِ گرامی قدر کی پیروی کرنے والے محدثین و فقہاء کرام اور بعد والے دینِ حنیف کے سب آئمہ الامۃ خیر الامم رحمہم اللہ جمیعاً اسی مذکورہ بالا عقیدہ و عمل پر تھے۔ (کہ عمل کے بغیر ایمان کی کوئی حیثیت نہیں۔) اس ضمن میں سلف و خلف کے تمام آئمہ کرام و علماء عظام رحمہم اللہ میں سے کسی نے بھی کسی دوسرے کے ساتھ مخالفت نہیں کی سوائے ان لوگوں کے جو اس باب میں حق سے پھسل کر باطل کی طرف مائل ہو گئے۔ جب کہ اہل السنۃ والجماعۃ سلفی حضراتِ گرامی کہتے ہیں : جس شخص نے ایمان سے عمل کو باہر نکال دیا وہ جانیے کہ مُرجی، (اُمت اسلامیہ میں فتنہ و فساد بپا کرنے والے ایک فرقہ مرجئہ میں سے) بدعتی اور گمراہ آدمی ہو گا۔ اور جو شخص اپنی زبان سے شہادتین کی گواہی دے اور اپنے دل سے اللہ تبارک و تعالیٰ کی وحدانیت کی گواہی دیتے ہوئے اُس پر مکمل یقین محکم تو رکھے مگر ارکانِ اسلام میں سے بعض کی ادائیگی میں اپنے اعضائِ وجود کے ساتھ تقصیر کرے اس کاایمان جانیے کہ مکمل نہیں ہوا۔ اور جس نے دراصل شہادتین کا اقرار ہی نہ کیا ہو اس کے لیے نہ ہی ایمان کا نام ثابت ہوتا ہے اور نہ ہی اسلام کا۔ ( یعنی نہ وہ مومن ہے اور نہ ہی مسلمان)۔ اور اہل السنہ والجماعۃ سلف صالحین ایمان کے بارے میں ان شاء اللہ کہنے کی رائے رکھتے تھے۔ یعنی یوں کہا جائے: میں مومن ہوں، ان شاء اللہ۔ وہ حضرات اللہ عزوجل سے شدت خوف، تقدیر پر ان کے ثابت قدم رہنے اور تزکیۂ نفس کی تکمیل نہ ہونے کی وجہ سے ( قرآن و احادیث مبارکہ میں مطلوب مکمل) ایمان کے بارے میں اپنے متعلق مکمل جازم ہونے کا اظہار نہیں کرتے تھے۔ اس لیے کہ ایمانِ مطلق تمام کے تمام واجب الاطاعات افعال کے سر انجام دینے اور تمام کی تمام منہیات کے چھوڑ دینے کو محیط ہوتاہے۔ مگر جب ایمان کے بارے میں شک کی بنیاد پر کہنا مراد ہو تو پھر وہ ’’ ان شاء اللہ‘‘ کہنے سے منع بھی کرتے تھے۔ چنانچہ اس کے متعلق قرآن و سنت اور سلف صالحین کے آثار میں بہت