کتاب: ایمان میں زیادتی اور کمی کے اسباب - صفحہ 154
دل کی تصدیق سے مراد اس کا اعتقاد، اس کی تصدیق، اس کا اقرار اور اس کا یقینِ محکم اختیار کرنا ہے۔ زبان کی تصدیق سے مراد عمل کا اقرار ہے۔یعنی شہادتین ( اللہ عزوجل کی توحید اور نبی مکرم محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی) اور ان دونوں کے مقتضیات پر عمل۔ دل کا عمل سے مراد دل کی نیت ( دل کا ارادہ) دل کا اطاعت کے لیے تسلیم، دل کا اخلاص اور اس کا مطیع و فرمانبردار ہونا اور یہ کہ اعمالِ صالحہ کے لیے دل کی محبت اور اس کا ارادہ مقصود ہے جب کہ زبان اوراعضائِ وجود کا عمل سے مراداُن افعال و احکام کو بجا لانا ہے کہ جن کے کرنے کا حکم دیا گیا ہو اور اُن باتوں کو چھوڑ دینا ہے کہ جن سے روکا گیا ہو۔ اور جیسا کہ امام اوزاعی، سفیان ثوری اور الحمیدی رحمہم اللہ فرماتے ہیں : ’’اور عمل کے بغیر ایمان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اور نہ ہی اقوال و اعمال نیت ( صالحہ) کے بغیر قبول ہوتے ہیں۔اور یہ کہ نہ ہی کوئی قول، نہ ہی کوئی عمل اور نہ ہی کوئی نیت اللہ کے ہاں مقبول ہو گی مگر صرف اور صرف سنت کی موافقت کے ساتھ۔‘‘ جیسا کہ امام لالکائی اور ابن بطہ رحمہما اللہ نے اپنی اپنی کتب میں درج کیا ہے، مذکورہ بالا آئمہ کرام کا یہ قول نہایت مشہور و معروف ہے۔ اللہ عزوجل نے مومنین کی صفت کا اطلاق قرآنِ عظیم میں درحقیقت ان لوگوں پر کیا ہے جو : (۱)..... ایمان لائے، اور (۲)..... دین حنیف کے اُصول اور اس کی فروعات پر جب ایمان لاتے ہیں تو اُن پر وہ پورا پورا عمل بھی کرتے ہیں۔ان اُصول و فروعات کا تعلق دین حنیف کے ظاہر سے ہو یا اُس کے باطن سے۔ اور اس ایمان کے آثار ان لوگوں کے عقائد، ان کے اقوال اور ان کے ظاہری و باطنی اعمال کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔چنانچہ اللہ عزوجل کا ارشاد گرامی قدرہے: