کتاب: ایمان میں زیادتی اور کمی کے اسباب - صفحہ 148
عبدالملک کو دیکھو اس کا ساتھی رجاء بن حیوہ تھا تو اس نے اسے سیدھا اور مضبوط کیا۔‘‘ مزید کہا: ’’الخلہ‘‘ دل سے دوستی رکھنے اور اسے دل میں جگہ دینے کو کہتے ہیں اور یہ ’’الاخاء‘‘ کے اعلیٰ درجات سے ہے، یہ اس لیے ہے کہ لوگ دراصل اجنبی ہوتے ہیں تو جب ایک دوسرے سے متعارف ہوتے ہیں تو ایک دوسرے سے مالوف ہو جاتے ہیں اور دوست بن جاتے ہیں۔جب محبت پکی ہو جاتی ہے تو وہ خلت بن جاتی ہے۔‘‘[1] کہتے ہیں :’’لوگ قطار پرندوں کے جھنڈ کی طرح ہیں۔کیونکہ وہ اسی جبلت پر پیدا ہوئے کہ وہ ایک دوسرے سے مشابہت کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی نقل اتارتے ہیں، اسی لیے خیر اور شر میں ابتدا کرنے والا سب لوگوں کے برابر اجر یا بوجھ دیا جائے گا۔‘‘[2] بعض حکماکہتے ہیں :’’ دوستی کی بنیاد ہم شکل ہونے پر ہے اور جو دوستی مشاکلت پر نہ ہو وہ جلد ٹوٹ جاتی ہے۔‘‘[3] برے ساتھیوں سے میل جول رکھنے سے منع کیا گیا ہے اور ان کے ساتھ ہم نشینی سے ڈرایا گیا ہے۔ کیونکہ انسانی طبیعت اقتدار اور تشبہ پر پیدا کی گئی ہے، تو وہ اپنے ساتھی سے مشابہت اختیار کرتا ہے۔ علم کی تلاش والوں سے ہم نشینی کرنا علم کے حصول کا شوق پیدا کرتا ہے اور دنیا سے بے رغبت لوگوں کی ہم نشینی سے دنیا سے بے رغبتی پیدا ہوتی ہے خواہشات کی پیروی والوں اور اہل بدعت کی مجلس میں بیٹھنا، بدعت اور خواہش کی رغبت پیدا کرتی ہے۔ دنیا کی حرص کے دل دادہ لوگوں کی ہم نشینی بھی دل میں حرص پیدا کرتی ہے۔ اس لیے ہر شخص پر لازم ہے کہ اچھے ساتھی اور اچھے ہم نشین اختیار کر ے جن کے
[1] العزلۃ للخطابی، ص: ۴۶۔ [2] الاستقامۃ لابن تیمیۃ: ۲؍ ۲۵۵، ط: جامعۃ الامام محمد بن سعود المدینہ المنورہ [3] العزلۃ للخطابي، ص: ۵۲۔