کتاب: ایمان میں زیادتی اور کمی کے اسباب - صفحہ 145
سے بے رغبت رہے اگر وہ چاہتے تو ہر پسندیدہ چیز حاصل کر سکتے تھے۔ آپ پر اس آخرت اور جنت اور اس کے خزانوں کی چابیاں پیش کی گئیں مگر انھوں نے آخرت پر دنیا کو بالکل ترجیح نہیں دی اور انھوں نے جان لیا کہ یہ سب گزر گاہ ہے، یہ اصلی ٹھکانا نہیں ہے اور انھوں نے اپنا آخرت کا حصہ فروخت کر کے دنیا نہیں خریدی۔ یہ دنیا عارضی اور بادل کے سائے کی طرح ہے جو جلد ہی ختم ہو جاتا ہے اور یہ محض ایک خیال، یہ مکمل نہیں ہوا کہ کوچ کی صدا لگ گئی۔[1] چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ أَفَرَأَيْتَ إِنْ مَتَّعْنَاهُمْ سِنِينَ ، ثُمَّ جَاءَهُمْ مَا كَانُوا يُوعَدُونَ ، مَا أَغْنَى عَنْهُمْ مَا كَانُوا يُمَتَّعُونَ ﴾ (الشعراء: ۲۰۵۔۲۰۷) ’’بتاؤ ہم ان کو اگر کچھ سالوں تک فائدہ دے دیں پھر ان کے پاس وہ چیز آ جائے جس کا وہ وعدہ کیے جاتے ہیں، تو جو انھیں فائدہ دیا جاتا ہے وہ ان کے کسی کام نہ آئے گا۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ كَأَنْ لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا سَاعَةً مِنَ النَّهَارِ يَتَعَارَفُونَ بَيْنَهُمْ ﴾ (یونس: ۴۵) ’’جس دن اللہ تعالیٰ ان کو اکٹھا کرے گا تو وہ اس طرح ہوں گے گویا کہ وہ دن کی ایک گھڑی ٹھہرے ہیں وہ آپس میں ایک دوسرے سے تعارف کریں گے۔‘‘ اور فرمایا: ﴿ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يُقْسِمُ الْمُجْرِمُونَ مَا لَبِثُوا غَيْرَ سَاعَةٍ﴾(الروم: ۵۵) ’’اور جس دن قیامت قائم ہو گی تو مجرم قسمیں کھائیں گے کہ وہ ایک گھڑی بھی نہیں ٹھہرے۔‘‘
[1] الفوائد لابن القیم، ص: ۱۷۶، ۱۷۸۔