کتاب: ایمان میں زیادتی اور کمی کے اسباب - صفحہ 144
ایک حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں : (( تُلْھِیْکُمْ کَمَا أَلْہَتَہُمْ)) [1] ’’وہ تمھیں اس طرح غافل کر دے گی جس طرح پہلے لوگوں کو غافل کر دیا تھا۔‘‘ اس کے علاوہ بھی بہت سی دیگر نصوص ہیں۔ ’’تو جو شخص اپنے ایمان میں بڑھوتری اور قوت کے ساتھ ساتھ ایمان کی کمزوری اور نقص سے سلامتی چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ دنیا کے فتنوں، غفلتوں اور خواہشات کے ساتھ جہاد کرے۔‘‘[2] یہ بات عملی جامہ تب پہن سکتی ہے جب دو امور پر غور کیا جائے: ۱۔ ایک چیز یہ ہے کہ دنیا اور اس کے جلد ختم اور فنا ہونے پر غورو فکر کیا جائے اور اس کی خساست پر غور کرے کہ یہ دنیا حرص کرنے والے اور اس کے طلب کرنے والے سے وفا نہیں کرتی اور یہ بے پناہ ہلاکت، زوال، فنا، افسوس حسرت، اور غم پر غم ہی ہے۔ ۲۔ دوسري چیز یہ ہے کہ آخرت کی طرف متوجہ ہونا کہ وہ بھی ضرور آئے گی اور اس کا دوام و بقاء اور اس کی اچھی اور خوش کرنے والی چیزیں دیکھی جائیں کہ یہ خیرات کامل اور ہمیشہ رہنے والی ہیں اور دنیا کی چیزیں ناقص اور ختم ہونے والی ہیں۔ تو جب ان دو باتوں پر اچھی طرح غور کیا جائے تو یہ غور و فکر آخرت کی ترجیح کی طرف رہنمائی کرے گا۔ اس تحقیق میں سب سے بڑا معاون سبب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر غور کرنا ہے، آپ کی اور آپ کے صحابہ کی سیرت ہی کو دیکھنا ہے کہ انھوں نے کس طرح اس دنیا کو پس پشت ڈال دیا اور اس سے اپنے دل پھیر لیے اور اسے اس طرح پھینک دیا کہ اس سے الفت بالکل نہ کی اور نہ اس کی طرف مائل نہیں ہوئے۔ بلکہ انھوں نے اسے جیل اور قید سمجھا اور اس
[1] صحیح البخاری، کتاب الرقائق، ح: ۶۴۲۵۔ صحیح مسلم، کتاب الزہد والرقائق، ح: ۲۹۶۱۔ [2] صید الخاطر لابن الجوزی، ص: ۲۵۔