کتاب: ایمان میں زیادتی اور کمی کے اسباب - صفحہ 138
’’قرآن میں ایسی آیات بکثرت ہیں۔‘‘[1] امام ابو محمد مقدسی رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’ذم الوسواس‘‘ کے مقدمہ میں یوں کہتے ہیں : ’’اما بعد! اللہ تعالیٰ نے شیطان کو انسان کا دشمن بنایا جو اس کے سامنے صراط مستقیم پر بیٹھا ہوا ہے اور وہ انسان کے پاس ہر جانب اور ہر راستے سے آتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے: ﴿ لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ (16) ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَنْ شَمَائِلِهِمْ وَلَا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ﴾ (الاعراف: ۱۶۔۱۷) ’’میں ان کے لیے تیرے سیدھے راستے پر بیٹھ جاؤں گا، پھر میں ان کے آگے، پیچھے، دائیں اور بائیں جانب سے آؤں گا اور ان میں سے اکثر کو تو شکر گزار نہ پائے گا۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کی پیروی کرنے سے منع کیا اور ہمیں اس کے ساتھ دشمنی اور مخالفت کرنے کا حکم دیا، چنانچہ فرمایا: ﴿ إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا ﴾ (فاطر: ۶) ’’شیطان تمھارا دشمن ہے پس اسے دشمن ہی سمجھو۔‘‘ اور فرمایا: ﴿ يَابَنِي آدَمَ لَا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ كَمَا أَخْرَجَ أَبَوَيْكُمْ مِنَ الْجَنَّةِ﴾(الاعراف: ۲۸) ’’اے بنی آدم! تمھیں کہیں شیطان فتنے میں نہ ڈال دے جس طرح اس نے تمھارے والدین کو جنت سے نکالا۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے وہ سب کچھ بتا دیا جو اس نے ہمارے والدین کے ساتھ سلوک روا
[1] تلبیس ابلیس لابن الجوزی ، ص: ۲۳، ط: دار الفکر۔