کتاب: ایمان میں زیادتی اور کمی کے اسباب - صفحہ 134
مشکل ہو جاتا ہے۔ جامع بات یہ ہے کہ پہلے وہ فرائض پر اپنے نفس کا حساب لے، اگر اس میں اگر کوئی نقص دیکھے تو اس کا تدارک کرے یا تو اس کی قضا کرے یا اصلاح کرے۔ پھر مناہی کا حساب کرے، اگر معلوم ہو گیا کہ کچھ گناہوں کا ارتکاب ہوا تو توبہ و استغفار اور گناہوں کو مٹانے والی نیکیوں سے تدارک کرے۔ پھر غفلت کا محاسبہ کرے، اگر فطری بات سے غافل ہوا تو ذکر اور اللہ کی طرف متوجہ کرنے کے ساتھ اس کا تدارک کرے۔ پھر زبان کے ساتھ کلام کردہ بات کا محاسبہ کرے اور پھر جس کی طرف اس کے قدم چلے ہوں، اس کے ہاتھوں نے پکڑا ہو یا اس کے کانوں نے سنا ہو۔ تو یوں کہے کہ تیرا کیا ارادہ تھا؟ اور کس کے لیے یہ کام کیا ہے اور یہ کام کس طریقے سے کیا اور یہ جان لے کہ اس کی ہر حرکت اور حکم کے لیے دو دیوان ہوں گے، ایک یہ ہو گا کہ کیوں کیا اور دوسرا یہ کہ یہ کام کس طرح کیا۔ تو پہلا سوال اخلاص سے متعلق ہو گا اور دوسرا سوال اتباع کے متعلق ہو گا کہ کس طریقے پر ادا کیا گیا۔ جب بندہ اپنی ہر چیز کا حتی کہ کان اور آنکھ پر سوال کیا جائے گا اور اس کا محاسبہ ہو گا تو مناسب اور حق یہی ہے کہ وہ حساب کا مناقشہ ہونے سے پہلے پہلے اپنے نفس کا حساب لے۔ نفس کے محاسبے کے واجب ہو نے پر قرآن کی یہ آیت دلالت کرتی ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ﴾(الحشر: ۱۸) ’’اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈر جاؤ اور چاہیے کہ تم میں سے ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لیے آگے کیا بھیجا ہے۔‘‘ مقصود یہ ہے کہ دل کی درستی نفس کے محاسبے سے ہوتی ہے اور دل کی خرابی محاسبے کے