کتاب: ایمان میں زیادتی اور کمی کے اسباب - صفحہ 132
کھلا چھوڑ دے تو اس شر سے انسان ہلاک ہو جائے۔ اگر اللہ تعالیٰ اسے نیکی کی توفیق دے اور اس کی مدد بھی کرے تو وہ ہلاکتوں سے نجات پا جائے۔‘‘[1] ’’ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے اس نفس کے مقابلے میں ایک ’’نفس مطمئنہ‘‘ مقرر کر دیا ہے تو جب نفس امارہ برائیوں کا حکم دے تو نفس مطمئنہ اسے منع کر دیتا ہے، تو انسان کبھی نفس مطمئنہ کی بات مانتا اور کبھی نفس امارہ کی، تو جو غالب آ جائے تو انسان اسی کی اطاعت کرتا ہے۔[2] امام ابن قیم رحمہ اللہ نے کہا: ’’اللہ تعالیٰ نے انسان سے دو نفس جوڑ دیے ہیں : (۱) نفس امارہ (۲) نفس مطمئنہ یہ دونوں باری باری اپنے کام کرتے ہیں اور یہ ایک دوسرے کے دشمن ہیں تو جو عمل ایک پر بھاری ہو وہ دوسرے پر ہلکا ہوتا ہے اور جو ایک پر ہلکا ہو وہ دوسرے پر بھاری ہوتا ہے، جو ان میں سے کسی کام سے لذت محسوس کرے دوسرا اس سے تکلیف محسوس کرتا ہے نفس امارہ پر اللہ کے لیے جو عمل کیا جائے بہت بھاری اور مشکل ہوتا ہے۔‘‘[3] اللہ تعالیٰ کی رضا کو نفس کی خواہش پر ترجیح دینا ایسا عمل ہے کہ اس کے لیے اس سے زیادہ مفید اور نفع مند اور کوئی عمل نہیں ہو سکتا اور نفس مطمئنہ پر اللہ کے غیر کے لیے جو عمل ہو اس سے مشکل کوئی عمل نہیں ہے اور جو چیز خواہش کا داعی اس کے لیے لاتا ہے اس سے بڑھ کر کوئی چیز بھی اس پر ضرر رساں نہیں ہے، ان دونوں کی جنگیں آپس میں جاری ہیں، دنیا کا وقت مکمل ہونے تک یہ جنگ اپنے ہتھیار نیچے نہیں رکھے گی۔ نفس امارہ بالسوء سے زیادہ کسی
[1] دیکھئے: الروح لابن القیم، ص: ۲۲۶، ط: دار الکتب العلمیہ۔ [2] الوابل الصیب لابن القیم، ص: ۲۷۔ [3] الجواب الکافی لابن القیم، ص: ۳۶۰، ط: دار عالم الفوائد