کتاب: ایمان میں زیادتی اور کمی کے اسباب - صفحہ 116
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’اس کا سبب یہ ہے کہ علم حقیقی جو دل میں مضبوط اور راسخ ہو جائے تو یہ نہیں ہو سکتا کہ اس سے اس کے مخالف قول یا فعل صادر ہو، تو جب بھی اس کے خلاف کوئی معاملہ آئے گا تو ضروری ہے کہ وہ دل کی غفلت یا اس کے معارض کے مقابلے میں دل کے کمزور ہونے کی وجہ سے ہو اور یہ حالات حقیقت علم کے خلاف ہیں تو اس اعتبار سے یہ شخص جاہل قرار پائے گا۔‘‘[1] پس اللہ تعالیٰ کے متعلق جاہل ہونا ایک بہت بڑی اور چیرپھاڑ دینے والی بیماری ہے جو اس بیمارپر ویل اور برے انجام لانے والی ہے۔ تو جس شخص پر یہ بیماری غلبہ پا لے تو اس کی ہلاکت کے متعلق نہ پوچھو۔ وہ نافرمانیوں اورگناہوں کی تاریکی میں گر پڑتا ہے اور صراط مستقیم سے ہٹ جاتاہے اور شبہات و شہوات کے سامنے فرمانبردار ہو جاتا ہے، مگر جب اسے اللہ کی رحمت پا لے جو دلوں کی مدد، آنکھوں کا نور اور خیر کی چابی جو علم نافع ہے اور عمل صالح کا ثمرہ ہے، کیونکہ اس بیماری کی وہاں کوئی دوا نہیں ہے سوائے علم کے اور یہ بیماری بیمار سے الگ نہیں ہوتی مگر جب اللہ اسے وہ چیز سکھا دے جو اسے فائدہ دے اور اس کی ہدایت کا اسے الہام کرے۔ جس شخص کو اللہ تعالیٰ چاہے اسے خیر دے تو وہ اسے وہ چیز سکھاتا ہے جو اسے نفع دے اور دین کی سمجھ دے اور اسے وہ چیز دکھاتا ہے جس میں اس کی فلاح و سعادت ہو تو وہ اس کے ذریعے جہالت سے نکل جاتا ہے اور جب اس کے ساتھ وہ بھلائی کا ارادہ نہ کرے تو اسے اپنی جہالت پر ہی رہنے دیتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے دلوں کو علم و ایمان کی مدد پہنچائے اور ہمیں جہالت اور زیادتی سے بچائے۔
[1] اقتضاء الصراط المستقیم لابن تیمیہ ، ص: ۲۵۷، ج۱ ط: دار عالم الکتب۔