کتاب: ایمان میں زیادتی اور کمی کے اسباب - صفحہ 112
کا دائرہ کار کیا ہے۔ حقیقی علم ایمان کو نقصان پہنچانے والے اسباب اور جو ان کے اثرات ہیں ان کا ہے۔ جیسے کسی کے سامنے اس کا من پسند لذیذ کھانا موجود ہو اور اسے معلوم ہو جائے کہ یہ زہر آلودہ ہے تو وہ کبھی اس کی طرف ہاتھ نہیں بڑھائے گا، اگر اس میں موجود نقصان دہ عوامل کے بارے میں اس کی معلومات ناقص ہیں تو پھر اس کا ارادہ بھی متزلزل ہو جائے گا اور قریب ہے کہ وہ وہ کھانا کھا لے۔اسی طرح حقیقی ایمان کی مثال ہے کہ وہ مؤمن کو اس چیز کی ترغیب دے گا جو اس کے لیے مفید اور نفع مند ہو اور ضرر رساں اور نقصان دہ چیزوں کے ترک پر اُبھارے گا، اگر کوئی شخص اس طرح نہیں کرتا، نقصان دہ چیز وں کو نہیں چھوڑتا، اس کا ایمان حقیقی ایمان نہیں ہے۔ اس کا ایمان اس کے علم و جہالت کے مطابق ہو گا۔ پس آگ پر ایمان لانے والے کا حقیقی ایمان اس طرح ہے کہ گویا کہ وہ اسے دیکھ رہا ہو، پھر وہ ایسے راستے پر ہرگز نہیں چلتا جو اس جہنم تک پہنچا دے تو وہ اس کی طرف اپنی کوشش سے دوڑ کر کیسے جائے گا۔ اسی طرح جنت پر حقیقی ایمان رکھنے والا اس کے حاصل کرنے کے متعلق وہ اپنے نفس کی یہ بات ہرگز نہیں مانے گا کہ وہ اس کے حاصل کرنے کو چھوڑ کر بیٹھا رہے، یہ ایک ایسا معاملہ ہے جسے انسان اپنے دل میں پاتا ہے جس میں وہ دنیوی فوائد اور اس کے نقصانوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔‘‘[1] پس نفس اس چیز کی خواہش کرتا ہے جو اسے نفع نہ دے بلکہ نقصان دے کیونکہ وہ اس کے ضرر سے انجان ہوتا ہے اس لیے جو شخص قرآن کریم میں غور و فکر کرتا ہے تو اس میں اس کے لیے بہت بڑا اشارہ ہے کہ جہالت ہی تمام گناہوں اور نافرمانیوں کی جڑ ہے۔
[1] إغاثۃ اللھفان: ۲؍۸۶۰، ط: دار عالم الکتب۔