کتاب: ایمان میں زیادتی اور کمی کے اسباب - صفحہ 108
’’شر کے پہچاننے میں یہ ڈر ہوتا ہے کہ کہیں اس میں واقع نہ ہو جائیں۔‘‘[1] ایمان کی کمی کے اسباب بیان کرنے سے پہلے میں چاہتا ہوں اس بات کی طرف اشارہ کر دوں کہ ایمان کی زیادتی والے اسباب کی پروا نہ کرنا اور اس کی مضبوطی کو نظرانداز کر دینا اور اس کا خیال نہ رکھنا بھی ایمان کی کمزوری کے اسباب میں سے ایک سبب ہے، تو جس طرح اس کی حفاظت کرنا اس کی زیادتی کا سبب ہے، اسی طرح اسے چھوڑ دینا اس میں نقص کا سبب ہے۔ الشیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’ایمان میں کمی کے کئی اسباب ہیں، تو انھوں نے اس کے متعلق کئی اسباب لکھے جن میں طاعت کے ترک کو بھی ایک سبب ذکر کیا، کیونکہ ایمان اس کے ساتھ کم ہوتا ہے اور اس میں نقص طاعت کی مضبوطی کی نسبت سے ہو گا۔ پس جب بھی ترک طاعت مضبوط ہو گی تو نقص ایمان بڑا ہو گا، جب ایمان کا مکمل فقدان ہو جائے تو وہ تارک نماز کی طرح ہو گا۔‘‘[2] اس پر قرآن کی یہ آیت دلالت کرتی ہے: ﴿ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا ، وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا ﴾ (الشمس: ۹۔۱۰) ’’بے شک جس نے اسے پاک کیا وہ کامیاب ہو گیا اور جس نے اسے میلا کر دیا وہ ناکام ہو گیا۔‘‘ یہ قرآن کریم کی نص طاعت کی اہمیت اور اس کی محافظت پر دلالت کرتی ہے اور اس بات پر بھی نص ہے کہ یہ تزکیہ نفس کے عظیم اسباب میں سے ہے۔ نیز یہ طاعت کے چھوڑ دینے کے خطرے اور نافرمانی میں پڑ جانے کے خطرہ پر بھی دلالت کرتی ہے اور اس پر بھی کہ نقصان اور ناکامی کے عظیم ترین اسباب میں سے ہے۔
[1] تلبیس إبلیس لابن الجوزی، ص: ۴۔ مجموع الفتاوی لابن تیمیہ: ۱۰؍ ۳۰۱۔ [2] فتح رب البریۃ بتلخیص الحمویۃ، لابن صالح عثیمین،ص: ۶۶۔