کتاب: ایمان میں زیادتی اور کمی کے اسباب - صفحہ 103
﴿ فَذَكِّرْ إِنْ نَفَعَتِ الذِّكْرَى ، سَيَذَّكَّرُ مَنْ يَخْشَى ، وَيَتَجَنَّبُهَا الْأَشْقَى ﴾ (الاعلٰی: ۹۔۱۱) ’’نصیحت کیجئے اگر وہ فائدہ دے، جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے وہ نصیحت حاصل کرے گا۔ مگر بدبخت اس سے کنارے رہے گا۔‘‘ یہ چیز اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مومن لوگ نصیحت سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور مجالس ذکر سے بھی نفع اٹھاتے ہیں۔یہ چیز ان میں خوشی اور ہمت پیدا کرتی ہے اور ان کے لیے فائدہ اٹھانا اور ان کا بلند ہونا واجب کر دیتی ہے بخلاف کھیل کود اور غفلت کی مجلسوں کے، کیونکہ وہ ایمان کے کم ہونے کے اسباب میں سے ہے۔ اسی لیے ہمارے سلف صالحین مجالس ذکر کا بہت زیادہ خیال کرتے تھے اور وہ کھیل کود اور غفلت کی مجالس سے بہت دور رہتے تھے۔ ہماری نظروں سے ان کے بہت سے اقوال گزرے ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں، مثلا عمیر بن حبیب خطمی اور معاذ بن جبل وغیرہما کے آثار۔ ایک اور سبب بھی ایمان کے قوی اور مضبوط ہونے کا موجود ہے جس کا ذکر کر کے ہم اپنی بات ختم کرتے ہیں اور وہ سبب یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کو اس بات کا عادی بنا دے اور اس بات پر اسے برانگیختہ کرے کہ وہ ان تمام اشیاء کا مقابلہ کرے جو ایمان کو کم کرنے، کمزور کرنے یا ختم کر دینے والی ہیں۔کیونکہ جس طرح یہ ضروری ہے کہ جس طرح ایمان کے تمام مقوی اور نشوونما کرنے والے افعال عمل میں لائے جائیں اسی طرح وہ اسباب بھی بروئے کار لائے جائیں جو ان اعمال و اسباب کے سامنے رکاوٹ بنتے ہیں اور وہ عمل یہ ہے کہ نافرمانیوں کو ترک کر دے اور جو کچھ اس واقع ہو رہا ہے اس پر وہ توبہ کرے۔ اور تمام محرمات سے اپنے جوارح کو محفوظ رکھے اور شبہات کے فتنوں کا مقابلہ کرے۔ یہ فتنے ایمان کے علوم میں نقصان پہنچانے والے ہیں اور انھیں کمزور کرنے والے ہیں اور وہ شہوات جو ایمان کے