کتاب: علم الرسم - صفحہ 38
أَلْقِ الدَّوَاۃَ، وَحَرِّفِ الْقَلَمَ، وَانْصِبِ الْبَائَ، وَفَرِّقِ السِّیْنَ، وَلَا تُعَوِّرِ الْمِیْمَ، وَحَسِّنِ اللّٰہَ، وَمَدَّ الرَّحْمٰنَ، وَجَوِّدِ الرَّحِیْمَ وَضَعْ قَلَمَکَ عَلٰی أُذُنِکَ الْیُسْرٰی فَإِنَّہٗ أَذْکَرُ لَکَ ’’دوات کا منہ کھلا رکھو، قلم کو ترچھا خط لگاؤ، باء کو کھڑا کرو، سین کو علیحدہ لکھو، میم کو ٹیڑھا نہ کرو، لفظ اللہ کو خوبصورت لکھو، الرحمن کو لمبا کرو اور الرحیم کو خوبصورت بناؤ، قلم کو اپنے دائیں کان پر رکھو، یہ یاد دلانے والا عمل ہے۔‘‘ ٭ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ مصحف عثمانی ان الفا ظ کے مطابق لکھا گیا ہے جو صحابہ کرام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنتے تھے۔ ٭ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر میں ا س معاملے کا والی بنایا جاتا تو میں بھی مصاحف کے معاملے میں وہی کرتا جو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے کیا ہے۔ ٭ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی أمر کو ثابت کردیتے ہیں تو وہ لازم اور واجب ہو جاتا ہے۔ اور تمام قراء ات قرآنیہ پر مشتمل اس کے علاوہ کوئی رسم موجود ہی نہیں ہے۔ لہٰذا کاتب قرآن مجید پر لازم ہے کہ وہ مصحف کی کتابت کرتے وقت دو رسموں والے کلمات کو احتیاط کے ساتھ لکھے۔ جیسے لفظ الرِّیْحِ کا رسم باثبات الالف اور بحذف الالف دونوں طرح ہوسکتا ہے۔ مگر حذف الف کے رسم کے ساتھ دونوں قراء ات بآسانی پڑھی جاسکتی ہیں۔ اسی طرح ان کلمات کو بھی احتیاط کے ساتھ لکھنے کی ضرورت ہے جو مختلف مصاحف میں مختلف رسم کے ساتھ مکتوب ہیں۔ جیسے وَقَالُواْ اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا کو شامی مصحف میں واؤ کے بغیر اور دیگر مصاحف میں واؤ کے ساتھ لکھا گیا ہے۔ کاتب پر لازم ہے کہ وہ ہر قاری یا قراء ات کے لیے اس کے موافق رسم کے مطابق کتابت کرے۔ یعنی اگر شامی کے لیے مصحف لکھنا ہو تو قَالُواْ اتَّخَذَ اللّٰہُ کو بغیر واؤ کے لکھے اور دیگر کے لیے وَقَالُواْ اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا واؤ کے اثبات کے ساتھ لکھے۔