کتاب: علم الرسم - صفحہ 37
ثابت ہے۔ یہ بھی رسم کے توقیفی ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ ٭ لفظ وَیَدْعُ(الاسرائ) ’وَیَمْحُ‘ (الشوریٰ) اور ’سَنَدْعُ‘ (العلق) ان تینوں افعال کو بغیر جازم کے حذف واؤ کے ساتھ پڑھنا تواتر سے ثابت ہے۔ حالانکہ یہ لغت ِ عرب کے خلاف ہے جو رسم کے توقیفی ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ ٭ اگر رسم عثمانی توقیفی نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ کی اس خبر اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہُ لَحٰفِظُوْنَ کا جھوٹا ہونا لازم آتا، جو کہ محال ہے۔ یعنی اگر رسم عثمانی توقیفی نہیں ہے اور صحابہ کرام نے اسے اپنی طرف سے ایجاد کیا تھا تو اس سے لازم آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لفظ رَحْمَتَ وأخواتھا کو ھاء کے ساتھ وَسَوْفَ یُؤْتِ کو یاء کے ساتھ اور وَیَدْعُ وأخواتھا کو واؤ کے ساتھ نازل کیا تھا، جبکہ صحابہ کرام نے رسم سے ناآشنائی اور جہالت کی وجہ سے ان کو بالترتیب تاء کے ساتھ، حذف یاء اور حذف واؤ کے ساتھ لکھ دیا اور چودہ صدیوں سے امت اسی غلطی کی اتباع کرتی چلی آرہی ہے۔ لہٰذا حفاظت الٰہی کا وعدہ جھوٹا پڑ جاتا ہے حالانکہ اللہ کے وعدوں کا جھوٹا ہونا محال ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ رسم عثمانی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے توقیفاً ثابت ہے۔ ٭ کاتبین وحی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں قرآن مجید کی کتابت کیا کرتے تھے، انہوں نے اپنی خداداد صلاحیت سے جو کچھ بھی لکھا، نبی کریم نے تقریر کے ذریعے اسے ثابت کردیا۔ اور آپ کی تقریر بھی آپ کے قول و فعل کی طرح شرعی حجت ہے۔ حدیث سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حروف و کلمات کے رسم کے بارے میں کاتبین وحی کی راہنمائی فرماتے رہا کرتے تھے۔ ایک موقعہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کاتب وحی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو ہدایات دیتے ہوئے فرمایا: