کتاب: علم الرسم - صفحہ 35
(1)شکل اور حروف میں اصل پر دلالت مثلا حرکات کو ان کے اصل کے اعتبار کرتے ہوئے حروف میں لکھنا جیسے وَإِیْتَآیِ ذِی القُرْبَیٰ، سَأُوْرِیْکُمْ، وَلَأَوْضَعُوْااسی طرح الـصَّلَوٰۃَ، الـزَّکَـوٰۃَاور الْحَیَوٰۃِکو اصل پر دلالت کرتے ہوئے الف کی بجائے واؤ سے لکھنا۔ (2)بعض فصیح لغات پر دلالت جیسے لغت طی پر دلالت کرنے کے لیے ہاے تانیث کو تاے مجرورۃ کے ساتھ لکھنا جیسے رحمۃ یا لغت ھذیل پر دلالت کرنے کے لیے یاء مضارع کو بغیر جازم کے حذ ف کردینا جیسے یَوْمَ یَأْتِ لَا تَکَلَّمُ نَفْسٌ۔ (3)کلمات میں وصل و قطع کے ذریعے مختلف معانی پر دلالت جیسے أَمْ مَّن یَکُوْنُ عَلَیْھِمْ وَکِیْلاًاور أَمَّن یَمْشِی سَوِیًّالفظ أَمْ اگر مَّن سے قطع کرکے لکھا جائے تو ’بل‘ کا معنی دیتا ہے۔ اگر موصولہ ہو تو ’بل‘ کا معنی نہیں دیتا۔ (4)ایک ہی رسم کے ساتھ مرسوم لفظ سے مختلف قراء ات کا استنباط جیسے وَمَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّا أَنفُسَھُمْاور وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ صِدْقًا وَعَدْلًامذکورہ دونوں مثالوں میں سے لفظ ’یخدعون‘ اور ’کلمات‘ کا رسم ایسا ہے جس سے دونوں قراء ات پڑھے جانے کا احتمال ہے۔ اگر پہلے لفظ کو یخادعون لکھا جاتا تو یَخْدَعُون َکی قراء ت فوت ہو جاتی۔ اسی طرح اگر دوسرے لفظ کو صیغہ جمع کے ساتھ ’کلمات‘ لکھا جاتا تو واحد کی قراء ت ’کلمت‘ فوت ہوجاتی۔ دونوں قراء ات کے استنباط کے لیے اسے لمبی تاء کے ساتھ لکھا گیا ہے۔ (5)کما حقہ تلاوت کرنے کی طرف راہنمائی یہ ہر نفیس علم کی شان ہے جو قرآن مجید کی حفاظت کا ضامن ہے۔