کتاب: علم الرسم - صفحہ 106
وہ الف دوسرے ہمزہ کی صورت ہے۔ اور اسی پر عمل ہے۔ نوٹ: مُتَّکِئِینَ، مُسْتَھْزِئُ ونَ، بَدَئُ وکُمْ کے باب میں اگر ہمزہ کو صورت دی جائے تو اجتماع مثلین ہوجاتا ہے۔ لہٰذا شیخین نے اس میں ہمزہ کی صورت کے حذف پر اتفاق کیا ہے اور اسی پر عمل ہے۔ ئَ امِنِینَ، ئَ آمِّینَ، ئَ اخِذِینَ، الْأَمِرُونَ، ئَ اخَرُونَ، ئَ اخَرِینَ، ئَ ایَٰتٍ اور الْمُنشَـَٔـآتُ کے باب میں جہاں جمع سالم میں ہمزہ الف سے پہلے واقع ہے، تمام مصاحف میں ہمزہ کی صورت محذوف ہے۔ اسی طرح ئَ امَنُواْ، ئَ اَبَآئَ کُمْ، ئَ اسِنِ، ئَ انِفًا کا ہمزہ بھی محذوف الصورۃ ہے۔ مگر الْمُنشَئَاتُ میں ایک قول کے مطابق اس کے برعکس ثابت ہے۔ بِنَآئً اور اس کے مشابہ تمام کلمات، جن کے آخر میں الف کے بعد ہمزہ پر دو زبر کی تنوین ہو، تمام مصاحف میں ایک الف کے ساتھ مرسوم ہیں۔ شیخین نے اس بات کو ترجیح دی ہے کہ مکتوب الف پہلا ہوگا۔ خَطَـًٔا اور اس کے مشابہ کلمات، جن کے آخر میں غیر الف کے بعد ہمزہ پر دو زبر کی تنوین ہو۔ اس کو بھی ایک الف کے ساتھ لکھا جاتا ہے۔ اور راجح بات یہ ہے کہ وہ تنوین کا الف ہوگا وَنَــَٔا، رَئَ ا۔ یہ دونوں کلمات تمام میں ایک الف کے ساتھ مرسوم ہیں، مختار رائے یہ ہے کہ ہمزہ کی صورت محذوف ہے اور موجودہ الف غیر قیاسی طور پر یاء سے بدل کر آیا ہے۔ اس سے دو کلمات مَا رَأَیٰٓ اور لَقَدْ رَأَیٰ (النجم) مستثنیٰ ہیں۔ یہ قیاس پر باقی ہیں۔ تَرَٰٓئَ اْ الْجَمْعَانِ