کتاب: عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام - صفحہ 32
کیوں رو رہی ہیں؟ عرض کیا : اللہ کے رسول! کیونکہ (کل) آپ نے دجال کا ذکر کیا تھا، فرمایا : روئیے مت، اگر میرے جیتے جی وہ نکل آیا، تو میں تمہیں اس سے کافی ہو جاؤں گا اور اگر میں فوت ہو گیا، تو (یہ یاد رکھنا کہ) تمہارا رب کانا نہیں ہے، دجال نکلے گا اور اس کے ساتھ اصبھان کے یہودی ہوں گے، پھر وہ چلے گا حتی کہ مدینہ کے بیرونی کنارے پر پڑاؤ ڈالے گا ، اس وقت مدینہ کے بُرے لوگ اس کے ساتھ مل جائیں گے، پھر وہ چلے گا حتی کہ مقام لد (بیت المقدس کے قریب ایک بستی ) تک پہنچ جائے گا،سیدنا عیسیٰ علیہ السلام (آسمان سے) نازل ہو کر اسے قتل کر دیں گے، پھر آپ زمین پر چالیس سال تک یا چالیس سال کے قریب ایک امامِ عادل اور حاکمِ منصف کی حیثیت سے رہیں گے۔‘‘ (مصنف ابن أبي شیبۃ : 15/134، مسند الإمام أحمد : 6/75، السّنّۃ لعبد اللّٰہ بن أحمد : 996، وسندہٗ حسنٌ) اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ (6822)نے ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔ ٭ علامہ ہیثمی رحمہ اللہ کہتے ہیں : رِجَالُہٗ رِجَالُ الصَّحِیحِ غَیْرُ الْحَضْرَمِيِّ بْنِ لَاحِقٍ، وَھُوَ ثِقَۃٌ ۔ ’’اس کے تمام راوی صحیح بخاری کے ہیں، سوائے حضرمی بن لاحق کے۔ وہ ثقہ ہیں۔‘‘ (مجمع الزّوائد : 7/338) حضرمی بن لاحق تیمی ’’حسن الحدیث، لا بأس بہ‘‘ ہے، اس کو امام ابن حبان رحمہ اللہ نے ’’الثقات‘‘ میں ذکر کیا ہے، امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے ’’لیس بہ بأس‘‘ کہا ہے۔ (الجرح والتّعدیل : 3/302، وسندہٗ صحیحٌ) ٭ امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :