کتاب: عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام - صفحہ 30
۱۔ امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد عیسیٰ علیہ السلام کے نماز پڑھانے سے یہ ہے کہ آپ امامت نماز کا حکم دیں گے ، کیونکہ اہل عرب فعل کا انتساب جس طرح کام کرنے والے کی طرف کرتے ہیں ، اسی طرح اس کا حکم دینے والے کی طرف بھی کر دیتے ہیں۔ (صحیح ابن حبان، تحت الحدیث : 6812) ۲۔ پہلی نماز مہدی کی اقتدا میں ادا کریں گے، بعد میں خود امامت کروائیں گے۔ ٭ علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ (۵۹۷ھ) فرماتے ہیں : اِعْلَمْ أَنَّہٗ لَوْ تَقَدَّمَ عِیسٰی لَوَقَعَ فِي النُّفُوسِ إِشْکَالٌ، وَلَقِیلَ : أَتَرَاہُ تَقَدَّمَ عَلٰی وَجْہِ النِّیَابَۃِ أَمِ ابْتَدَأَ شَرْعًا؟، فَیُصَلِّي مَأْمُومًا لِئَلَّا یَتَدَنَّسَ بِغَبَارِ الشُّبْہَۃِ، وَجْہُ قَوْلِہٖ : لَا نَبِيَّ بَعْدِي ۔ ’’جان لیجئے کہ اگر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام (پہلی نماز کی) امامت کرائیں، تو یہ اشکال واقع ہو گا اور کہا جائے گا کہ دیکھیے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب کی حیثیت سے امامت کرا رہے ہیں یا نئی شریعت کی ابتدا کر رہے ہیں؟ اس لیے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام (پہلی نماز) مقتدی کی حیثیت سے پڑھیں گے، تا کہ شبہہ کی وجہ سے فرمان نبوی : ’’میری بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘ کا معنی پراگندہ نہ ہو جائے۔‘‘ (کشف المُشکِل : 3/88) 8. سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : إِنَّہٗ سَیَظْہَرُ عَلَی الْـأَرْضِ کُلِّہَا إِلَّا الْحَرَمَ، وَبَیْتَ الْمَقْدِسِ، وَإِنَّہٗ یَحْصُرُ الْمُؤْمِنِینَ فِي بَیْتِ الْمَقْدِسِ فَیَتَزْلَزَلُونَ زِلْزَالًا شَدِیدًا، فَیُصْبِحُ فِیہِمْ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ فَیَہْزِمُہُ اللّٰہُ وَجُنُودَہٗ ۔