کتاب: عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام - صفحہ 13
٭ نیزفرماتے ہیں : ہٰذَا الْقَوْلُ ہُوَ الْحَقُّ ۔ ’’یہی قول حق ہے۔‘‘ (تفسیر ابن کثیر : 2/412) ٭ حدیث ِ ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ بھی اسی معنی ومفہوم کی تائید کرتی ہے۔ (صحیح البخاري : 3448، صحیح مسلم : 155) 3. اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿یَا أَہْلَ الْکِتَابِ قَدْ جَائَ کُمْ رَسُولُنَا یُبَیِّنُ لَکُمْ عَلٰی فَتْرَۃٍ مِّنَ الرُّسُلِ أَنْ تَقُولُوا مَا جَائَ نَا مِنْ بَشِیرٍ وَّلَا نَذِیرٍ فَقَدْ جَائَ کُمْ بَشِیرٌ وَّنَذِیرٌ وَّاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَيْئٍ قَدِیرٌ﴾(المائدۃ : 19) ’’اہل کتاب! آپ کے پاس رسولوں کے ایک وقفے کے بعد رسول آیا ہے، جو کھل کر بیان کرتا ہے، یوں نہ کہنا کہ ہمارے پاس کوئی بشیر و نذیر نہیں آیا، بلکہ تمہارے پاس بشیر و نذیر آچکا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ ہر شے پر قادر ہے۔‘‘ ٭ مشہورلغوی امام زجاج رحمہ اللہ ( 311ھ)لکھتے ہیں : ﴿عَلٰی فَتْرَۃٍ مِّنَ الرُّسُلِ﴾ أَيْ عَلَی انْقِطَاعٍ، لِأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بُعِثَ بَعْدَ انْقِطَاعِ الرُّسُلِ لِأَنَّ الرُّسُلَ کَانَتْ إِلٰی وَقْتِ رَفْعِ عِیسٰی تَتْرٰی، أَيْ مُتَوَاتِرَۃً، یَجِيئُ بَعْضُہَا فِي إِثْرِ بَعْضٍ ۔ فترہ کا معنی انقطاع ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رسولوں کے انقطاع کے بعد