کتاب: عیدین و قربانی فضیلت و اہمیت ، احکام و مسائل - صفحہ 88
امام اوزاعی، ثوری، احمد، اسحق، ابو حنیفہ، ابو یوسف، محمد اور ایک روایت میں امام شافعی رحمہم اللہ کا یہی مسلک ہے۔ ان سب کا استدلال سنن اربعہ (سوائے ترمذی) سنن بیہقی، دارمی، طحاوی، ابن الجارود، ابن حبان اور مسند احمد میں حضرت ابو عمیر رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث سے ہے جسے امام ابن المنذر، ابن السکن، ابن حزم، امام خطابی اور حافظ ابن حجر نے صحیح قرار دیا ہے؛ اس میں وہ اپنے بعض انصاری چچوں ( رضی اللہ عنہم ) سے بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا: (( غُمَّ عَلَیْنَا ہِلاَلُ شَوَّالٍ فَأَصْبَحْنَا صِیَامًا فَجَائَ رَکْبٌ مِنْ آخِرِ النَّہَارِ فَشَہِدُوْا عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلي اللّٰہ عليه وسلم اَنَّہُمْ رَأَوُا الْہِلَالَ بِالْاَمْسِ فَاَمَرَ النَّاسَ اَنْ یُفْطِرُوْا مِنْ یَوْمِہِمْ وَ اَنْ یَخْرُجُوْا لِعِیْدِہِمْ مِنَ الْغَدِ )) [1] ’’ماہ شوال کا چاند (بادلوں کی وجہ سے) ہم پر اوجھل رہا، لہٰذا ہم نے روزہ رکھ لیا۔ لیکن دن کے آخری پہر میں ایک قافلہ آیا اور اس کے افراد نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر شہادت دی کہ انھوں نے کل شام چاند دیکھا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ روزہ کھول لیا جائے اور اعلان کروا دیا کہ اگلے دن نماز عید کے لیے عید گاہ چلیں۔‘‘ اس طرح اگلے دن جو نماز ادا کی جائے گی اس کے بارے میں امیر صنعانی نے سبل السلام میں اور امام شوکانی نے نیل الاوطار میں لکھا ہے کہ اس حدیث کے ظاہری الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نماز ادا ہوگی قضا نہیں۔ امام خطابی
[1] مسند أحمد (۵/ ۵۸) مصنف ابن أبي شیبۃ (۲/ ۳۱۹) المنتقی لابن الجارود (۱/ ۷۷) نیز دیکھیں: التلخیص الحبیر (۲/ ۸۷) إرواء الغلیل (۳/ ۱۰۲)