کتاب: عیدین و قربانی فضیلت و اہمیت ، احکام و مسائل - صفحہ 78
رکعتیں ادا کی جائیں اور پھر بعد میں امام خطبہ دے، جیسا کہ صحیحین و سنن اربعہ (سوائے ابو داود) سنن بیہقی، مصنف ابن ابن شیبہ اور مسند احمد (دون قولہٗ: وعثمان) میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے: (( کَانَ النَّبِيُّ صلي اللّٰہ عليه وسلم وَ اَبُوْ بَکْرٍ وَ عُمَرُ وَ عُثْمَانُ یُصَلُّوْنَ الْعِیْدَیْنِ قَبْلَ الْخُطْبَۃِ )) [1] اس موضوع کی ایک حدیث صحیح مسلم، سنن نسائی و دارمی و بیہقی اور مسند احمد میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اور صحیحین و سنن اور مسند احمد میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے، اور صحیحین و سنن نسائی اور ابن ماجہ میں حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔[2] ان سب احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز پڑھنے کے بعد لوگوں کے بیٹھے رہنے کی توقع ہو یا چلے جانے کا خدشہ ہو، بہر حال سنت یہی ہے کہ خطبہ نماز کے بعد ہو۔ عہد بنی امیہ میں اس خدشے کے پیش نظر کہ لوگ چلے جائیں گے، خطبہ نماز سے قبل دیا گیا لیکن اس وقت بھی ان کے اس فعل پر نکیر کی گئی تھی۔[3] افتتاح خطبہ: آج کل بعض علماء نمازِ عید اور خصوصاً عید الاضحی کے خطبہ کا آغاز و افتتاح حمد و ثنا کی بجائے تکبیرات سے کرتے ہیں حالانکہ خطبۂ عید کا افتتاح بھی اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا سے ہی ہونا چاہیے۔ چنانچہ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ زاد المعاد میں لکھتے ہیں
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۹۲۰) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۸۸۸) [2] حوالہ سابقہ۔ [3] تفصیل کے لیے دیکھیں: فتح الباری (۲/ ۴۵۴) وغیرہ ونیل الاوطار (۲/ ۳/ ۲۹۴ ۲۹۵) زاد المعاد (۱/ ۴۴)