کتاب: عیدین و قربانی فضیلت و اہمیت ، احکام و مسائل - صفحہ 68
عمر بن عبدالعزیز اور زہری و مکحول کا بھی یہی قول ہے، نیز امام مالک، اوزاعی، شافعی، احمد رحمہم اللہ کا بھی یہی مسلک ہے۔[1] ان کا استدلال ایک تو ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی اس حدیث سے ہے جسے امام ابو داود، حاکم اور بیہقی نے روایت کیا ہے، جس میں وہ بیان کرتی ہیں: (( إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلي اللّٰہ عليه وسلم کَانَ یُکَبِّرُ فِيْ الْفِطْرِ وَالْاَضْحٰی، فِي الْاُوْلٰی: سَبْعَ تَکْبِیْرَاتٍ، وَ فِي الثَّانِیَۃِ : خَمْسًا )) [2] ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر اور عید الاضحی کی پہلی رکعت میں سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں کہتے تھے۔‘‘ جبکہ سنن ابو داود و ابن ماجہ، شرح معانی الآثار طحاوی، سنن دار قطنی و بیہقی اور مسند احمد میں یہ الفاظ بھی ہیں: (( سِوٰی تَکْبِیْرَ تَيْ الرُّکُوْعَ )) [3] ’’رکوع کی دونوں تکبیروں کے علاوہ۔‘‘ سنن دار قطنی کی روایت میں ہے: ((سِوَی تَکْبِیْرَۃِ الْاِفْتِتَاحِ )) [4] ’’تکبیر تحریمہ کے علاوہ۔‘‘ ان کی دوسری دلیل سنن ابو داود، ابن ماجہ، طحاوی، دار قطنی، بیہقی، مصنف ابن ابی شیبہ، مسند احمد اور کتاب العیدین فریابی (واللفظ لہ) میں مروی عمرو بن شعیب والی حدیث ہے، جس میں مذکور ہے:
[1] نیل الأوطار (۲/ ۳/ ۳۹۹) المجموع للنووي (۵/ ۲۰) فقہ السنۃ (۱/ ۳۲۰) [2] أبو داود مع العون (۴/ ۶) الإرواء (۳/ ۱۰۶۔ ۱۰۷) و صححہ [3] سنن أبي داود، رقم الحدیث (۱۱۵۰) [4] دیکھیں: نیل الأوطار (۲/ ۳/ ۲۹۹)