کتاب: عیدین و قربانی فضیلت و اہمیت ، احکام و مسائل - صفحہ 36
تواضع کرتے رہے، تو پھر معاف کرنا۔۔۔ آپ سرے سے ان لوگوں میں داخل ہی نہیں جنھیں کہا جاتا ہے: ’’عُوْدُوْا اِلٰی مَنَازِلِکُمْ مَغْفُوْرًا لَّکُمْ‘‘ کہ خوشی خوشی اپنے گھروں کو چلے جاؤ تم بخش دیے گئے ہو۔ نہ یہ منادی آپ کے لیے اور نہ فوز و فلاح کے سرٹیفیکیٹ آپ کے لیے۔ اب فرمایئے تو سہی کہ آپ خوش کس بات پر ہیں؟
ذرا آپ ہی بتائیں کہ جب آپ نے رمضان کو رمضان سمجھا ہی نہیں تھا تو یہ عید آپ کی کیونکر ہو سکتی ہے؟ خوشی کی اسناد آپ کو کس حق کی بنا پر دی جائیں جبکہ آپ نے کورس ہی نہیں کیا؟ اس تربیتی کورس کے امتحان میں بیٹھے ہی نہیں۔ وہ شخص جسے اللہ نے دولتِ عقل و دانش سے نواز رکھا ہے، وہ یہی کہے گا کہ ایسے لوگوں کو عید کی خوشیاں منانے کا کوئی حق نہیں ہے۔
لیکن دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ عید کی تیاریاں کرنے اور خوشیاں منانے میں عموماً وہ لوگ پیش پیش ہوتے ہیں جنہوںنے پورا مہینہ روزہ چکھ کر بھی نہیں دیکھا ہوتا۔ ان احباب کی خدمت میں عربی کے چند اشعار پیش کیے دیتے ہیں کیونکہ ایک تو لغتِ عرب اپنی فصاحت و بلاغت میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتی کہ چند کلمات میں وہ کچھ سمویا ہوا ملتا ہے جسے کسی دوسری زبان میں منتقل کرنے کے لیے کئی گنا زیادہ الفاظ کی ضرورت ہے اور پھر شعر کی زبان تو ہر لغت میں ’’دریا در کوزہ‘‘ کا مصداق ہوتی ہے؛ اور جب شعر بھی عربی ہوں تو چند ہی اشعار میں معانی کا ایک جہاں آباد ملتا ہے۔ چنانچہ ایک شاعر کہتا ہے:
لَیْسَ الْعِیْدُ لِمَنْ لَبِسَ الْجَدِیْدَ
اِنَّمَا الْعِیْدُ لِمَنْ خَافَ الْوَعِیْدَ
’’عید اس کی نہیں جس نے نئے کپڑے پہن لیے، بلکہ عید تو اس کی ہے جو عذاب سے ڈر گیا (اور اسے امن مل گیا)۔‘‘