کتاب: عیدین و قربانی فضیلت و اہمیت ، احکام و مسائل - صفحہ 35
اگر یہ سب کچھ آپ مہینہ بھر کرتے رہے ہیں تو تمھیں بشارت ہو کہ یہ عید تمھاری ہے؛ یہ ساری خوشیاں اور مسرتیں تمھیں مبارک ہوں؛ یہ الوداعی پارٹی اور اخروی فوزو فلاح کا سرٹیفیکیٹ تمہارا ہی حق ہے ۔ اور یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ اسلام کے مزاج کو رہبانیت یا گوشہ نشینی سے کوئی نسبت ہی نہیں۔ اسلام میں قلب و روح کے لطائف سے لے کر جسم و جان کے تقاضوں تک ہر چیز کا پورا پورا خیال رکھا گیا ہے اور ماہ رمضان میں ہمیں ذاتی خواہشات کی اس ادنی سطح سے اٹھا کر رضائے الٰہی کے فراز اعلی تک پہنچا دیا جاتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس ماہ کے دنوں میں ہم کچھ کھاتے پیتے نہیں، تو یہ محض اس بنا پر ہوتا ہے کہ محبوب حقیقی کا حکم ہی یہی ہے۔ غروب آفتاب پر ہمارا ہاتھ بے اختیار دسترخوان کی طرف لپکتا ہے تو وہ اس لیے کہ اس جان جاں کا اشارہ اسی طرف ہے۔ گویا ہم اپنے جذبات و خواہشات کے تابع نہیں بلکہ قلب وضمیر میں تسلیم ورضا کے شعور نے ہمیں اللہ و رسول کے احکامات کا تابع کردیا ہے اور عید کے دن اجلے لباس، متبسم چہرے اور ناؤنوش کا اہتمام روزہ داروں کی اسی خوشی کا غماز ہوتا ہے کہ وہ اپنے نفس کی تربیت کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور یہ عید دراصل انھیں عبادت گزاروں کا جشن تہنیت ہے۔ لیکن جن لوگوں نے کسی بھی شرعی عذر کے بغیر اس ماہ کے روزے ہی نہیں رکھے یا باقاعدہ روزوں کا اہتمام نہیں کیا۔ نہ دنوں کو صیام سے سنوارا، نہ راتوں کو قیام سے مزین کیا، نہ تراویح کی سنت ادا کی، نہ نوافل سے کوئی سروکار رکھا اور نہ ہی تلاوتِ قرآن کی حلاوت سے آشنا ہوئے بلکہ اس کے برعکس اس سعادت پرور ماہ کی راتوں کو فحش فلمیں دیکھنے یا تاش و شطرنج جیسے لغو کھیلوں کی نذر کر دیا اور اس ماہ مبارک کے دنوں میں بھی ناؤ نوش کے ساتھ اپنے کام و دہن کی