کتاب: عیدین و قربانی فضیلت و اہمیت ، احکام و مسائل - صفحہ 34
بیہقی نے روایت کیا ہے۔ اس کی سند کے بارے میں امام منذری نے کہا ہے کہ اس کی سند میں کوئی راوی ایسا نہیں جس کے ضعیف ہونے پر اجماع ہو۔[1]
اس شاہد کی بنا پر مذکورہ روایت کو کچھ تقویت پہنچ جاتی ہے جیسا کہ علامہ عبیداللہ رحمہ اللہ کے انداز سے مترشح ہوتا ہے۔
اندازہ فرمائیں کہ بھلا کسی کورس کو پاس کرلینے کی سند اخروی فوز وفلاح کے سرٹیفیکیٹ سے بڑھ کر ہوسکتی ہے؟ ہر گز نہیں۔ لیکن ٹھہریے! کیا یہ درست نہیں کہ اسناد صرف انھیں لوگوں کو ملتی ہیں جو کورس پاس کریں؟ اگر یہ بات درست ہے تو پھر یقین رکھیے کہ عید الفطر اپنے جلو میں جو خوشیاں اور مسرتیں لاتی ہے اور ہلال عید اپنے دامن میں جن اجالوں کو بھر کر جلوہ افروز ہوتا ہے، اس کے حقیقی مستحق صرف وہی لوگ ہو سکتے ہیں جنہوں نے مہینہ بھر یہ کورس کیا، رضائے الٰہی کے حصول کے لیے اپنے نفس کے مطالبوں پر اپنے خالق و مالک کی مرضی کو ترجیح دی اور بھوک و پیاس کی مشقتیں برداشت کیں؛ جنھوں نے شب زندہ داری کی، نیند کے جھولوں پر بے خوابی کو ترجیح دی؛ اپنے اوقات کو تلاوتِ قرآن سے منور کیا اور لغویات و خرافات سے دامن کش رہے۔ ہاں! تو فرمائیے، کیا آپ نے بھی پورا مہینہ اسی طرح گزارا ہے ؟ خواہشاتِ نفس کو حکم رضائے الٰہی پر قربان کیا ہے؟ کیا آپ نے اپنی آنکھوں، کانوں اور زبان پر احتساب کے پہرے بٹھائے تھے؟ کیا آپ نے نرم و گداز مخملیں گدوں پر جانماز کو مقدم رکھا ہے؟ کیا آپ نے اپنی دعائے نیم شبی میں اپنی ردائے معصیت کے داغوں کو اشکہائے ندامت سے پاک کرنے کی کوشش کی تھی؟
[1] تفصیل کے لیے دیکھیں: مرعاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، علامہ عبید اللّٰہ رحمانی (۴/ ۳۰۹۔ ۳۱۰)