کتاب: عیدین و قربانی فضیلت و اہمیت ، احکام و مسائل - صفحہ 28
راہنمائی نہ کرے یا پھر وہ اپنے قومی مآثر کو ویسے ہی چھوڑ چکی ہو۔ ہمارے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت نے جزیرہ نمائے عرب میں ایک ایسا عظیم اور پر امن انقلاب برپا کیا جس سے زندگی کے تمام گوشے متاثر ہوئے۔ شرک کی جگہ توحید باری تعالی نے لے لی۔ بت پرستی کی بجائے عبادتِ الٰہی اور صرف رب واحد کی پرستش کے چرچے ہونے لگے۔ اخلاقی قدریں اپنا مقام پانے لگیں اور اغیار کی غلامی کی کڑیاں ایک ایک کرکے ٹوٹنے لگیں۔ اس کے ساتھ فطرتِ انسانی کے مسلمہ جذبات اور جذبہ اظہارِ مسرت کا بھی خیال رکھا گیا، جیسا کہ سنن ابو داود، ترمذی، نسائی، معانی الآثار طحاوی اور مسند احمد میں مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو دیکھا کہ اہل مدینہ نے بھی کھیل کود اور خوشی منانے کے دو دن مقرر کیے ہوئے ہیں، تو حضرت انس رضی اللہ عنہ کے بقول آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( کَانَ لَکُمْ یَوْمَانِ تَلْعَبُوْنَ فِیْھِمَا، وَ قَدْ اَبْدَلَکُمُ اللّٰہُ بِہِمَا خَیْرًا مِنْہُمَا: یَوْمَ الْفِطْرِ وَ یَوْمَ الْاَضْحٰی )) [1] ’’تم نے کھیل کود اور خوشی منانے کے دو دن مقرر کیے ہوئے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان جاہلی تہواروں کے بدلے میں تمھارے لیے دو بہترین دن مقرر کیے ہیں اور وہ عید الفطر اور عیدالاضحی کے دن ہیں۔‘‘ اس حدیث میں عید ین سے پہلے جن دو دنوں میں کھیل کود کا ذکر آیا ہے، صاحب التنقیح کے حوالے سے شیخ احمد عبدالرحمن البنا نے لکھا ہے کہ ’’ان دو دنوں سے مراد نو روز اور مہرجان کے مجوسی تہوار ہیں۔‘‘[2]
[1] مسند أحمد (۳/ ۱۷۸) سنن النسائي، رقم الحدیث (۱۵۵۶) وقال الألباني في تحقیق المشکاۃ (۱/ ۴۵۲): ’’إسنادہ صحیح‘‘ [2] بلوغ الأماني شرح الفتح الرباني (۶/ ۱۱۹)