کتاب: عیدین و قربانی فضیلت و اہمیت ، احکام و مسائل - صفحہ 25
(( اِذَا کَانَ صَوْمُ یَوْمِ اَحَدِکُمْ فَلاَ یَرْفُثْ، وَلاَ یَصْخَبْ فَاِنْ سَابَّہٗ اَحَدٌ اَوْ قَاتَلَہٗ فَلْیَقُلْ: اِنِّيْ صَائِمٌ )) [1]
’’جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو اسے چاہیے کہ فحش گوئی، بدکلامی اور سوقیانہ زبان درازی نہ کرے۔ اور اگر کوئی دوسرا شخص گالی گلوچ کرے اور لڑائی جھگڑا کرنا چاہے تو یہ اسے کہہ دے کہ میں تو روزے سے ہوں۔‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ زبان پر کنٹرول کرنا اور فحش گوئی ، بدکلامی ، گالی گلوچ اور لڑائی جھگڑے سے رک جانا روزے کے آداب میں سے ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ رمضان المبارک گزرجانے کے بعد بھی ہم زبان کا تحفظ کرتے ہیں یا نہیں؟ کیونکہ روزے کی حالت میں اگر یہ امور ممنوع ہیں تو یہ مباح کب ہیں؟
ایسے ہی صحیح بخاری اور سنن ابی داود و ترمذی میں ارشادِ نبوی ہے:
(( مَنْ لَمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ، وَالْعَمَلَ بِہٖ، فَلَیْسَ للّٰہِ حَاجَۃٌ اَنْ یَّدَعَ طَعَامَہٗ وَ شَرَابَہٗ )) [2]
’’جو روزہ دار روزے کی حالت میں جھوٹ بولنے اور اس پر عمل کرنے سے باز نہیں رہتا، اللہ تعالی کو اس کے کھانا پینا چھوڑنے (اور بھوکا پیاسا مرنے) کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘
اس ارشاد گرامی میں یہ بتایا گیا ہے کہ روزے کی حالت میں جھوٹ نہ بولنا قبولیتِ روزہ کی شرط ہے۔ یعنی اگر کوئی روزہ بھی رکھے اور جھوٹ بھی بولتا جائے تو
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۸۰۵) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۱۵۱)
[2] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۱۸۰۴) سنن أبي داود، رقم الحدیث (۲۳۶۲)