کتاب: عیدین و قربانی فضیلت و اہمیت ، احکام و مسائل - صفحہ 209
ممالک کو بھیج دیے جاتے تھے۔ شاہ فیصل کے دور حکومت میں اس غرض کے لیے جدہ میں ایک عظیم الشان کارخانہ قائم ہوگیا۔ منیٰ سے قربانی کے ذبح شدہ جانوروں کو ٹرکوں کے ذریعہ باہر لایاجاتا اور ان کا چمڑا نکال کر جدہ بھیج دیا جاتا جہاں جدید آلات و وسائل پر مشتمل کارخانے میں صاف کرکے انھیں پختہ کیا جاتا۔ پھر اسے ہر قسم کے خوبصورت پکے رنگوں سے رنگا جاتا۔ اس کارخانے میں سینکڑوں مصری اور دوسرے ممالک کے کاریگر اور عملہ کام کرتا ہے اور وہاں بیس پچیس قسم کے مردانے، زنانے اور بچکانے جوتے، چپلیں اور سینڈلیں تیار ہوتی ہیں۔ ان کے علاوہ فوجی استعمال کی اشیاء کمر کی پیٹی، کارتوسدان وغیرہ اور عام استعمال کی اشیاء سوٹ کیس، بیگ، منی بیگ اور فائل بیگ وغیرہ تیار ہوتے ہیں۔
ہندوستان کے معروف تاریخی پرچے ماہنامہ ’’صدق جدید‘‘ لکھنو نے ۲۷ جنوری ۱۹۵۶ء کی اشاعت میں ذکر کیا تھا کہ اسی طرح ہڈیوں کے بارے میں بھی تدابیر سوچی جارہی ہیں اور امید ظاہر کی تھی کہ چمڑے کی طرح ہی قربانی کی دوسری اشیاء گوشت اور اون وغیرہ بھی جدید طریقوں سے کام آنے لگیں گی۔
’’معمار قوم‘‘ بنگلور نے اپنی ۵ اکتوبر ۱۹۷۸ء کی اشاعت میں سعودی حکومت کے مکہ و مدینہ سے متعلقہ ترقیاتی منصوبوں کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ سعودی عرب میںجرمنی کی مدد سے ایک جدید منصوبے کی بنیاد رکھی گئی ہے جس کے تحت حجاج کی قربانیوں کے گوشت اور کھالوں سے زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کیے جائیں گے اور لکھا تھا کہ اس جدید ترقی پذیر منصوبے سے ایک بہت بڑے مسئلے کا حل نکل آیا ہے۔
جدہ سے شائع ہونے والا ایک کثیر الاشاعت روزنامہ ’’المدینہ‘‘ جو موسم حج میں اپنے عمومی عربی ایڈیشن کے علاوہ ایک اردو ایڈیشن بھی روزانہ شائع کرتا