کتاب: عیدین و قربانی فضیلت و اہمیت ، احکام و مسائل - صفحہ 194
پرسکون ہوگیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے مالک کا پتہ کروا کے اسے فرمایا:
(( اَفلاَ تَتَّقِي اللّٰہَ فِيْ ہٰذِہِ الْبَہِیْمَۃِ الَّتِيْ مَلَّکَکَ اللّٰہُ إِیَّاہَا ، فَاِنَّہٗ شَکَا اِلَيَّ اَنْ تُجِیْعَہٗ وَ تُدْئِبَہٗ )) [1]
’’کیا تم اس جانور سے بدسلوکی کرتے ہوئے اللہ سے نہیں ڈرتے ہو جس نے تمھیں اس کا مالک بنایا ہے؟ اس نے میرے سامنے تمھاری شکایت کی ہے کہ تم اسے بھوکا رکھتے ہو اور کام زیادہ لیتے ہو۔‘‘
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معجزہ مذکورہ کتب کے علاوہ دلائل النبوۃ بیہقی جلد دوم میں بھی مذکور ہے۔ مسند احمد، مستدرک حاکم اور سنن بیہقی میں مروی ہے کہ سواری والے جانوروں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(( اِرْکَبُوْا ہٰذِہِ الدَّوَابَّ سَالِمَۃً وَ دَعُوْھَا سَالِمَۃً وَ لاَ تَتَّخِذُوْہَا کَرَاسِيَّ )) [2]
’’ان جانوروں پر صحیح و سالم ہونے کی شکل میں سواری کرو اور جب ضرورت نہ ہو تو انھیں صحیح و سالم ہی فارغ چھوڑ دو اور انھیں (بلا
[1] ابو داود (۲۵۴۹) ’’الجہاد‘‘ مسند احمد (۱/ ۲۰۴، ۲۰۵) مسند ابو یعلی (۶۷۸۷) اور ’’مستدرک حاکم‘‘ (۲/۹۹-۱۰۰) اس کو ابن ابی شیبہ (۶/ ۳۲۲۔ دار التاج) ابوعوانۃ (۱/ ۱۹۷) اور ابن عساکر نے بھی ’’تاریخ دمشق‘‘ (۱۸، ۱۹، تراجم حرف العین عبداللہ بن جابر، عبداللہ بن زید) میں روایت کیا ہے، یہ عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور صحیح حدیث ہے۔
[2] مسند احمد (۳/ ۴۴۰، ۴/ ۴۳۴) مستدرک حاکم (۱/ ۴۴۴، ۲/ ۱۰۰) اور سنن بیہقی (۵/ ۲۵۵) اس کو دارمی (۲/ ۲۸۶) ابن خزیمہ (۲۵۴۴) ابن حبان (۲۰۰۲) اور طبرانی نے بھی ’’المعجم الکبیر‘‘ (۲۰/ ۱۹۳) میں معاذ بن انس سے روایت کیا ہے اور اس کی سند حسن درجہ کی ہے؛ ابن خزیمہ، ابن حبان، حاکم اور ذہبی نے اس کو صحیح کہا ہے۔