کتاب: عیدین و قربانی فضیلت و اہمیت ، احکام و مسائل - صفحہ 184
کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مینڈھے قربانی کے لیے ذبح کیے۔ ایک اپنی اور اپنے گھر والوں کی طرف سے اور دوسرا اپنی امت کے لوگوں کی طرف سے۔[1] اس میں طریقہ استدلال یہ ہے کہ امت کے لوگوں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو فوت ہو چکے ہیں، لہٰذا فوت شدگان کی طرف سے قربانی کرنا جائز ہوا لیکن حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں لکھا ہے کہ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں سے ہے، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی امت کی طرف سے قربانی دینا فوت شدگان کی طرف سے قربانی کے جواز کی دلیل نہیں بن سکتا۔ (بحوالہ إرواء الغلیل: ۴/ ۳۵۴) فوت شدگان کی طرف سے قربانی کے جواز کی دوسری دلیل حضرت علی رضی اللہ عنہ کا عمل ہے؛ چنانچہ سنن ابو داود و ترمذی میں حضرت حنش رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دو مینڈھے قربانی کرتے دیکھا اور پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ تو انھوں نے فرمایا: (( إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اَوْصَانِيْ اَنْ اُضَحِّيَ عَنْہُ فَاَنَا اُضَحِّيْ عَنْہُ )) [2] ’’مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت فرمائی تھی کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بھی قربانی کیا کروں، لہٰذا میں آپ کی طرف سے بھی ایک قربانی کرتا ہوں۔‘‘ اس روایت سے یوں استدلال کیا جاتا ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نبی
[1] دیکھیں: ارواء الغلیل (۴/ ۳۴۹۔ ۳۵۴) [2] ابو داود (۲۷۹۰) ترمذی (۱۴۹۵) اور اسی طرح اس کو حاکم (۴/ ۲۲۹، ۲۳۰) اور بیہقی (۹/ ۲۸۸) نے بھی روایت کیا ہے۔ یہ روایت ابو الحسناء کی وجہ سے ضعیف ہے، اس کو حافظ ابن حجر نے ’’تقریب‘‘ میں مجہول کہا ہے اور علامہ ذہبی نے ’’میزان‘‘ میں کہا ہے: ’’لا یعرف‘‘ یعنی معلوم نہیں کہ یہ کون ہے؟