کتاب: عیدین و قربانی فضیلت و اہمیت ، احکام و مسائل - صفحہ 179
جانور بیچ کر اس کی قیمت سے کوئی دوسرا جانور (اونٹ) خرید لوں تو اسے حکم ہوا:
(( لاَ، اِنْحَرْھَا اِیَّاھَا )) [1] ’’نہیں! اسی جانور کو ذبح کرو۔‘‘
اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ جب کوئی جانور قربانی کے لیے متعین کر لیا جائے تو پھراسے بدلنا جائز نہیں۔ امام شوکانی نے یہی موقف اختیار کیا ہے۔
(نیل الاوطار: ۳/ ۵/ ۱۱۴ طبع مصر)
البتہ المغنی لابن قدامہ (۱۱/ ۱۱۱)، الانصاف (۴/ ۸۹) اور المحلی لابن حزم (۷/ ۲۷۵) میں لکھا ہے کہ اگر متعین کردہ جانور سے اچھا جانور لے کر قربانی کرنے کا ارادہ ہو تو اسے تبدیل کرنا جائز ہے۔ امام احمد، مالک، ابو حنیفہ، محمد، عطاء، مجاہد اور عکرمہ رحمہم اللہ اسی کے قائل ہیں۔
علامہ ابن حزم نے اس سلسلے میں بڑی عمدہ بحث کی ہے اور لکھا ہے کہ اگر یہ نذر مانی ہوئی ہو کہ فلاں جانور کی قربانی ہی دوں گا تو اس نذر کو پورا کرنا ضروری ہے لیکن عام تعیین کی شکل میں متعین جانور کو اس کی نسبت افضل جانور سے بدلنے کی ممانعت نہیں ہے۔ (حوالہ بالا)
قربانی و الے جانور کی عمر اور دانت:
قربا نی والے جانور کی عمر کے سلسلے میں سنن اربعہ، مسند احمد، موطا امام مالک، صحیح ابن حبان اور سنن بیہقی میں مذکور حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے
[1] ’’التاریخ الکبیر‘‘ (۲/ ۲۳۰) ابو داود (۱۷۵۶) بیہقی (۵/ ۲۴۱، ۲۴۲) علامہ شوکانی نے اس حدیث کو ابن خزیمہ اور ابن حبان کی طرف بھی منسوب کیا ہے اس حدیث کی سند میں جہم بن الجارود ہے۔ علامہ ذہبی ’’میزان‘‘ میں کہتے ہیں: ’’فیہ جہالۃ‘‘ یعنی یہ مجہول ہے اور حافظ ابن حجر نے ’’تہذیب التہذیب‘‘ میں کہا ہے کہ ابن خزیمہ نے اس کی حدیث کو اپنی صحیح میں وارد کیا ہے اور اس سے حجت لینے کے بارے میں توقف کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کے نام میں بھی اختلاف ہے۔ الخ