کتاب: عیدین و قربانی فضیلت و اہمیت ، احکام و مسائل - صفحہ 175
مسند احمد ، مستدرک حاکم، سنن بیہقی میں حضرت ابو رافع سے اور مسند احمد میں حضرت عائشہ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث سے بھی پتہ چلتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خصی جانورکی قربانی دی۔[1]
حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کو شیخ البانی نے ارواء الغلیل میں صحیح قرار دیا ہے البتہ انھوں نے لفظ ’’موجوئین‘‘ کو شاذ یا منکر کہا ہے۔
(الارواء: ۴/ ۳۶۰)
انھیں احادیث کی بنا پر جمہور اہل علم بشمول ائمہ اربعہ کے نزدیک خصی جانور کی قربانی جائز ہے۔
حاملہ جانور کا حکم؟
خصی جانور کی طرح ہی حاملہ جانور کی قربانی بھی جائز ہے کیونکہ اس کی قربانی کے ممنوع ہونے کی کوئی صریح دلیل نہیں ملتی۔
سنن ابو داود و ترمذی میں ارشاد نبوی ہے:
(( مَا سَکَتَ عَنْہُ فَہُوَ عَفْوٌ )) [2]
’’جس کا حکم بیان کرنے سے اﷲ تعالیٰ نے سکوت کیا ہو وہ معاف ہے۔‘‘
اس حدیث کی رو سے حاملہ جانور کی قربانی جائز ہوگی اور حاملہ جانور کو قربانی کی نیت سے خرید لینے کے بعد قربانی سے پہلے ہی وہ اگر شیر دار ہوجائے تو قربانی کے دن ماں اور بچہ دونوں کو ہی ذبح کر دیا جائے، یہ ایک ہی قربانی شمار
[1] دیکھیں صفحہ نمبر ( )
[2] ابو داود (۳۸۰۰) ’’الأطعمۃ‘‘ میں یہ ابن عباس رضی اللہ عنہا کا قول ہے اور ترمذی (۱۷۲۶) ’’اللباس‘‘ میں سلمان رضی اللہ عنہ سے مرفوع حدیث ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہا کے قول کی سند صحیح ہے اور حدیثِ سلمان کی سند ضعیف ہے مگر اس پر حدیثِ ابی الدرداء شاہد ہے جس کی سند حسن درجہ کی ہے اور یہ حدیث مسند بزار وغیرہ میں ہے۔