کتاب: عیدین و قربانی فضیلت و اہمیت ، احکام و مسائل - صفحہ 154
ذبح و نحر کا فرق اور طریقہ بالتفصیل مذکورہے۔ (دیکھیں: المرعاۃ: ۷/ ۲۷، ۲۸، الفتح الرباني و شرحہ ۱۳/ ۵۵ تا ۵۷، ترجمۂ قرآن از مولانا مودودی، سورۃ الحج، حاشیہ: ۹) گائے یا بھینس کو ذبح یا نحر؟ جمہور اہل علم کے نزدیک گائے اور بھینس کو ذبح کرنا ہی مستحب ہے کیونکہ سورہ بقرہ میں ارشاد الٰہی ہے: { اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تَذْبَحُوْا بَقَرَۃً} [البقرۃ: ۶۷] ’’اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ گائے کو ذبح کرو۔‘‘ اس ارشاد میں چونکہ گائے کی نسبت ذبح کا لفظ استعمال ہوا ہے اس لیے یہی مستحب ہے ، البتہ اسے نحر کرنا بھی جائز ہے بلکہ علامہ عبیداللہ رحمانی رحمہ اللہ نے مشکوۃ کی شرح المرعاۃ میں لکھا ہے کہ امام ابو حنیفہ، مالک، شافعی وغیرہم رحمہم اللہ اور اکثر اہل علم کے نزدیک نحر والے جانوروں کو ذبح کر لینا اور ذبح والے جانوروں کو نحر کر لینا بھی جائز ہے جبکہ حنابلہ کے نزدیک یہ صورت صرف ضرورت و مجبوری کی شکل ہی میں جائز ہے ورنہ نہیں۔ (المرعاۃ: ۷/ ۲۸) جانور کو قبلہ رو کر لینا: نحر و ذبح کے وقت جانور کو قبلہ رو کر لینا مسنون ہے۔ اس بات کا پتہ صحیح بخاری، سنن ابو داود، موطا امام مالک اور سنن بیہقی میں مذکور ایک حدیث سے چلتا ہے، جس میں مذکور ہے: (( وَوَجْہُہَا قِبَلَ الْقِبْلَۃِ )) [1] ’’اور جانور کو قبلہ رو کھڑا کیا۔‘‘
[1] بخاری (۳/ ۵۴۲- الفتح) میں نافع سے روایت ہے کہ ابن عمر جانور کو ذبح کرتے وقت قبلہ رو کرلیا کرتے تھے۔ بخاری میں یہ اثر تعلیقاً مروی ہے جبکہ اس کو مالک (ا/ ۳۷۹) اوربیہقی نے موصولاً روایت کیا ہے اور اس کی سند صحیح ہے۔ مرفوع روایت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔ دیکھیں: ابو داود (۲۷۹۵) ابن ماجہ (۳۱۲۱)