کتاب: عیدین و قربانی فضیلت و اہمیت ، احکام و مسائل - صفحہ 152
یہی واقعہ مستدرک حاکم میں بھی مذکور ہے۔ اس میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ہیں: (( اَتُرِیْدُ اَنْ تُمِیْتَھَا؟ ھَلاَّ حَدَدْتَّ شُفْرَتَکَ قَبْلَ اَنْ تَضْجِعَھَا؟ )) [1] ’’کیا تو اسے کئی موتیں مار کر اس کی جان نکالنا چاہتا ہے؟ تم نے اسے لٹانے سے پہلے ہی چھری تیز کیوں نہ کرلی؟‘‘ ایسے ہی صحیح مسلم، سنن اربعہ، سنن بیہقی، مسند دارمی، مسند احمد اور مصنف ابن ابی شیبہ میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: (( اِنَّ اللّٰہَ کَتَبَ الْاِحْسَانَ عَلٰی کُلِّ شَيْئٍ، فَاِذَا قَتَلْتُمْ فَاَحْسِنُوا الْقَتْلَ، وَاِذَا ذَبَحْتُمْ فَاَحْسِنُوا الذَّبْحَ وَلْیُحِدَّ اَحَدُکُمْ شَفْرَتَہٗ وَلْیُرِحْ ذَبِیْحَتَہٗ )) [2] ’’اللہ نے ہر چیز کے ساتھ احسان کو فرض قرار دیا ہے لہٰذا اگر تم کسی کو (قصاص میں) قتل کرو تو بھی اسے اچھے طریقے سے قتل کرو اور اگر کسی جانور کو ذبح کرنا ہو تو اسے بھی اچھے طریقے سے ذبح کرو، اور تمھیں چاہیے کہ اپنی چھری کو خوب تیز کر لو اور ذبیحہ کو (جلد ذبح کرکے) آرام پہنچاؤ۔‘‘
[1] اس کو حاکم (۴/ ۲۳۱، ۲۳۳) نے روایت کیا ہے اور اسے صحیح کہا ہے اور ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے اور یہ صحیح حدیث ہی ہے۔ مصنف عبدالرزاق (۸۶۰۸) میں اس حدیث کو معمر نے عکرمۃ سے مرسلاً روایت کیا ہے مگر ان کے مرسل بیان کرنے سے اس حدیث کی صحت متاثر نہیں ہوتی کیونکہ طبرانی اور بیہقی میں عبدالرحیم بن سلیمان اور مستدرک حاکم میں حماد بن زید نے اس کو موصول بیان کیا ہے اور یہ دونوں ثقہ ہیں، لہٰذا ان کی روایت مقدم ہوگی۔ [2] مذکورین کے علاوہ اس حدیث کو ابن الجارود (۸۳۹، ۸۹۹) عبدالرزاق (۸۶۰۳۔ ۸۶۰۴) اور طیالسی (۱/ ۳۴۲) نے بھی روایت کیا ہے۔