کتاب: عیدین و قربانی فضیلت و اہمیت ، احکام و مسائل - صفحہ 137
مروی ہے کہ میں نے میزبانِ رسول حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے پوچھا:
(( کَیْفَ کَانَتِ الضَّحَایَا فِیْکُمْ عَلٰی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلي اللّٰہ عليه وسلم ؟ ))
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مسعو دمیں تم قربانیاں کیسے کرتے تھے؟‘‘
تو انھوں نے جواب دیا:
’’ کَانَ الرَّجُلُ فِيْ عَہْدِ النَّبِيِّ صلي اللّٰہ عليه وسلم یُضَحِّيْ بِالشَّاۃِ عَنْہُ، وَ عَنْ اَہْلِ بَیْتِہٖ ‘‘[1]
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک آدمی اپنی اور اپنے سارے گھر والوں کی طرف سے ایک قربانی دیا کرتا تھا۔‘‘
اس کی تائید سنن اربعہ اور مسند احمد کی ایک اور حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں مذکور ہے:
(( عَلٰی کُلِّ اَہْلِ بَیْتٍ فِيْ کُلِّ عَامٍ اُضْحِیَۃٌ )) [2]
[1] ترمذی (۱۵۰۵) ابن ماجہ (۳۱۴۷) اسی طرح اسے مالک (۲/ ۴۸۶) طبرانی نے ’’المعجم الکبیر‘‘ (۴/ ۱۳۷، ۱۳۸) میں اور بیہقی (۹/ ۲۶۸) نے بھی روایت کیا ہے، اور یہ صحیح حدیث ہے؛ امام نووی نے بھی ’’المجموع‘‘ (۸/ ۳۸۴) میں اس کو صحیح کہا ہے۔
[2] ابو داود (۲۷۸۸۰) ترمذی (۱۵۱۸) نسائی (۵/ ۱۶۷، ۱۶۸) ابن ماجہ (۳۱۲۵) احمد (۴/ ۲۱۵، ۵/ ۷۶) اسی طرح اسے طبرانی نے ’’المعجم الکبیر‘‘ (۲۰/ ۳۱۰، ۳۱۱) میں، ابو الشیخ نے طبقات المحدثین (۱/ ۷۳، ۷۴) میں، بیہقی (۹/ ۲۶۰) اور بغوی (۱۱۲۸) نے بھی ابو رملہ کے واسطے سے مخفف بن سلیم رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور یہ سند ضعیف ہے۔ ابو رملۃ جس کا نام عامر ہے، کو خطابی نے ’’معالم السنن‘‘ (۲/ ۲۲۶) میں اور ابن حزم نے ’’المحلی‘‘ (۷/ ۳۵۷) میں مجہول کہا ہے، اور حافظ ابن حجر نے ’’تقریب‘‘ میں کہا ہے: ’’لا یعرف‘‘ یہ معروف نہیں۔ حافظ صاحب نے ’’فتح الباری‘‘ (۱۰/ ۴) میں اس سند کو قوی کہا ہے مگر یہ قوی کیسے ہوسکتی ہے کیونکہ ابو رملہ مجہول ہے؛ ہاں اس حدیث کا ایک دوسرا طریق بھی ہے جس سے اس سند کو تقویت پہنچتی ہے۔ احمد (۵/ ۷۶) نے اس حدیث کو ایک دوسری سند سے مخفف بن سلیم رضی اللہ عنہ کی بجائے ’’حبیب بن مخفف‘‘ سے روایت کیا ہے اور یہ سند بھی ضعیف ہے کیونکہ اس میں عبدالکریم بن ابی المخارق ہے اور یہ ضعیف ہے۔ ابن مخفف کو حافظ ابن حجر نے ’’تعجیل المنفعۃ‘‘ (۸۴) میں ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ ان کو صحبت حاصل ہے؛ مزید یہ بھی کہا ہے کہ ’’مسند‘‘ میں تو اسی طرح ہے مگر صحیح یہ ہے کہ یہ روایت حبیب نے اپنے باپ ’’مخفف‘‘ سے بیان کی ہے۔ یہ بات ابو نعیم وغیرہ نے کہی ہے۔ قلت: ’’مسند احمد‘‘ میں اس حدیث کا حبیب سے مروی ہونا یہ کسی ناسخ یا راوی کی غلطی کی وجہ سے ہے، اور اس کی دلیل یہ ہے کہ احمد نے اس حدیث کو عبدالرزاق سے روایت کیا ہے اور ’’مصنف عبدالرزاق ‘‘ (۸۱۵۹) میں حبیب نے اس حدیث کو اپنے باپ مخفف بن سلیم ہی سے روایت کیا ہے۔ اسی طرح طبرانی نے بھی ایک روایت میں اس حدیث کو عبدالرزاق کے طریق سے روایت کیا ہے اور اس میں بھی ’’مصنف عبدالرزاق‘‘ کی طرح اس حدیث کو حبیب نے اپنے باپ مخفف سے ہی روایت کیا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ ’’مسند احمد‘‘ میں اس کا حبیب سے مروی ہونا کسی راوی کے وہم یا کسی ناسخ کی غلطی کی وجہ سے ہے ۔ واللہ اعلم! حاصل کلام: اس حدیث کی دونوں سندیں ضعیف ہیں، مگر دونوں کو ملانے سے اس حدیث کو کچھ تقویت ملتی ہے۔