کتاب: عیدین و قربانی فضیلت و اہمیت ، احکام و مسائل - صفحہ 136
(( مَنْ وَجَدَ سَعَۃً فَلَمْ یُضَحِّ فَلاَ یَقْرُبَنَّ مُصَلاَّناَ )) [1]
’’جو شخص قربانی کی طاقت رکھتا ہو پھر بھی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ پھٹکے۔‘‘
گویا جو شخص طاقت کے باوجود قربانی جیسے عمل اور شعائر اسلام سے غفلت و سستی اختیار کرتا ہے اسے مسلمانوں کی عید گاہ میں جانے اور نماز عید ادا کرنے سے کیا حاصل ہوگا؟
اس حدیث کو سامنے رکھ کر غور فرمائیں کہ کس قدر بدنصیب ہیں وہ لوگ جو شادی بیاہ اور پیدائش و اموات کے موقعوں، قومی و ملکی رسموں اورعلاقائی رواجوں پر تو خلاف شرع بھی پانی کی طرح پیسہ بہائے جاتے ہیں لیکن سال کے بعد جب عیدالاضحی آتی ہے تو قربانی کے لیے ایک بکرا یا مینڈھا خریدنے یا اونٹ گائے میں حصہ دار بننے کی بھی انھیں توفیق نہیں ہوتی۔
ایک قربانی میں پورے گھر والوں کی شرکت:
جبکہ یہ بھی ضروری نہیں کہ حاجیوں کی طرح ہر ہر فرد کا قربانی کرنا ضروری ہو بلکہ غیر حاجیوں کے لیے تو پورے گھر والوں کی طرف سے صرف ایک ہی قربانی کر لینا بھی کافی ہے البتہ اپنی مرضی سے کوئی زیادہ قربانیاں دے تو زیادہ ثواب ہے۔ چنانچہ سنن ترمذی و ابن ماجہ میں حضرت عطاء بن یسار رحمہ اللہ سے
[1] ابن ماجہ (۳۱۲۳) مسند احمد (۲/ ۳۲۱) اسی طرح اسے دار قطنی (۴/ ۳۸۹، ۴/ ۲۳۳) بیہقی (۹/۲۶۰) اور خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد (۸/ ۳۳۸) میں روایت کیا ہے۔ اس کو حاکم نے صحیح کہا ہے، اسی طرح حافظ ابن حجر اور بوصیری کا رجحان بھی اس کی صحت کی طرف ہے۔ ملاحظہ ہو: ’’الدرایۃ‘‘ لابن حجر (۲/ ۲۱۳) اور ’’مصباح الزجاجۃ‘‘ للبوصیري (۱۰۸) علامہ البانی نے اس کو ’’صحیح الجامع‘‘ (۶۳۶۶) میں ذکر کیا ہے اور صحیح کہا ہے۔